اگر مورِث کی مذکر اولاد نہ ہو تو کیا اس کے بھتیجے حصہ پائیں گے؟


سوال نمبر:5125
السلام عليكم! سوال یہ ہے کے میرے نانا کی چار بیٹیاں ہیں اور دو بھتیجے ہیں۔ نانا کا انتقال 2001 میں ہوا۔ 2004 میں ان کی ایک بیٹی کا انتقال ہوا۔ اب 2018 میں میری نانی کا انتقال ہو چکا ہے۔ ان کی میراث کس طرح تقسیم ہوگی؟ کیا جس بیٹی کی وفات ہوچکی ہے اس کے بیٹے کو حصہ ملے گا؟

  • سائل: فرحان موسیٰمقام: پشاور
  • تاریخ اشاعت: 29 اکتوبر 2018ء

زمرہ: تقسیمِ وراثت

جواب:

میت کی تجہیز و تکفین، قرض کی ادائیگی اور وصیت (اگر ہے تو) ایک تہائی سے پوری کرنے کے بعد جو باقی بچ جائے اُسے ورثاء میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ آپ کے سوال کے مطابق یہاں دو فوت شدگان ہیں جن کی وراثت تقسیم کرنے کے لیے جواب کے دو حصے بنتے ہیں:

پہلا حصہ

جب آپ کے نانا جان 2001 ء میں فوت ہوئے تو اس وقت اُن کے ورثاء میں ایک بیوہ، چار بیٹیاں اور دو بھتیجے موجود تھے۔ اس طرح کل قابل تقسیم ترکہ سے آٹھواں (1/8) حصہ مرحوم کی بیوہ کو ملے گا جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ.

اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لیے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد۔

النساء، 4: 12

جس طرح مرحوم کی بیوہ کو کل قابلِ تقسیم ترکہ سے حصہ دیا گیا ہے، اسی طرح کل قابل تقسیم ترکہ سے ہی دو تہائی (2/3) حصہ چاروں بیٹیوں میں برابر برابر تقسیم کیا جائے گا۔ جب بیٹے نہ ہوں تو بیٹیوں کے وراثت سے حصہ پانے کے حوالے سے فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ.

پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کے لیے اس ترکہ کا دو تہائی (2/3) حصہ ہے، اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لیے آدھا(1/2) ہے۔

النساء، 4: 11

بیوہ اور بیٹیوں کو ان کے حصے دینے کے بعد باقی ماندہ تمام مال بطورِ عصبہ دونوں بھتیجے برابر حصہ پائیں گے۔ جیسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا فَمَا بَقِيَ فَلِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ.

میراث اُس کے حق دار لوگوں کو پہنچا دو اور جو باقی بچے تو وہ سب سے قریبی مرد کے لیے ہے۔

  1. بخاري، الصحيح، كتاب الفرائض، باب ميراث الولد من أبيه وأمه، 6: 2476، رقم: 6351، دار ابن كثير اليمامة
  2. مسلم، الصحيح، كتاب الفرائض، باب ألحقوا الفرائض بأهلها فما بقي فلأولى رجل ذكر، 3: 1233، رقم: 1415، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث

لہٰذا آپ کے نانا جان کے ترکہ سے بیوہ کو آٹھواں، بیٹیوں کو دو تہائی اور باقی دونوں بھتیجوں کو ملے گا۔ چونکہ ابھی تک ترکہ تقسیم نہیں ہوا تھا اس لیے 2004ء میں فوت ہونے والی بیٹی کا حصہ اس کی اولاد کو ملے گا۔

دوسرا حصہ

آپ کی نانی جان کے کل قابلِ تقسیم ترکہ سے دو تہائی (2/3) حصہ مذکورہ بالا اصول کے مطابق تینوں بیٹیوں میں برابر تقسیم کیا جائے گا۔ جو بیٹی اپنی والدہ کے وصال سے پہلے فوت ہوگئی ہے وہ اِس ترکہ سے حصہ نہیں پائے گی۔ تینوں بیٹیوں کو حصہ دینے کے بعد بقیہ مال فوت شدہ نانی کے بھائی یا بھتیجے یا جو بھی مذکر وارث زندہ ہے بطور عصبہ پائے گا۔اگر کوئی عصبہ مرد زندہ نہیں ہے تو بقیہ مال نواسے اور نواسیوں میں اس طرح تقسیم ہوگا کہ ہر لڑکے کو دو حصے اور ہر لڑکی کو ایک حصہ ملے گا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری