جواب:
تقسیمِ وراثت کے مسئلہ کا صحیح حل بتانے کے لیے فوت شدگان کی ترتیب جاننا ضروری ہوتا ہے جبکہ آپ کے سوال میں معلومات ادھوری ہیں۔ آپ نے اپنے والد صاحب کی دوسری اہلیہ اور اس کی بیٹی کے بارے میں تو بتایا لیکن یہ نہیں بتایا کہ کون کب فوت ہوا؟ کیونکہ آپ کے بھانجے کے بارے فیصلہ یہ جانے بغیر نہیں کیا جاسکتا کہ اس کی والدہ اپنے والد کی زندگی میں فوت ہوئی تھی یا بعد میں؟ بہرحال ہم اس کی ممکنہ حالتوں کے بارے میں آگاہ کیے دیتے ہیں:
نوٹ: اگر معاملہ درج بالا حالتوں کے علاوہ ہو تو آپ دوبارہ ای میل کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے والد صاحب کے وصال کے وقت ان کی دونوں بیویاں زندہ تھیں تو کُل قابلِ تقسیم ترکہ سے آٹھویں حصے (1/8) میں برابر شریک ہوں گی‘ اگر ایک زندہ ہے تو آٹھواں حصہ اسی کو مل جائے گا۔ کیونکہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:
وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ.
اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لئے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد۔
النساء، 4: 12
بیوہ کو دینے کے بعد باقی جائیداد بیٹوں اور بیٹیوں میں اس طرح تقسیم ہوگی کہ ہر بیٹی کو ایک حصہ اور ہر بیٹے کو اس سے دوگنا ملے گا۔ ارشادِ ربانی ہے:
يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ.
اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے۔
النساء، 4: 11
اگر آپ کے والد کی دوسری بیوی کی اولاد ایک بیٹی بھی والد کے وفات کے وقت زندہ تھی تو پھر بیوہ یا بیوگان کو آٹھواں حصہ دینے کے بعد باقی جائیداد کے برابر گیارہ حصے کیے جائیں‘ ہر بیٹی کو ایک حصہ (فوت شدہ بیٹی کا حصہ اس کے بیٹے کو) دینے کے بعد بقیہ آٹھ حصے چار بیٹوں کو برابر دے دیئے جائیں۔ اگر مذکورہ بیٹی والد کے وصال سے پہلے فوت ہوگئی تھی اسے یا اس کے بیٹے کو حصہ نہیں ملے گا بلکہ آٹھواں حصہ نکالنے کے بعد بقیہ مال کے دس حصے کر کے دونوں بیٹیوں کو ایک ایک حصہ اور بیٹوں کو دو حصے دیے جائیں گے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔