جواب:
مؤرخین اور محدثین کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چار صاحبزادیاں ہیں، البتہ صاحبزادوں کی تعداد میں اختلاف ہے۔ اختلاف کا سبب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیٹے بچپن میں ہی وصال فرما گئے۔ اکثر مؤرخین نے بیٹوں کی تعداد تین بتائی ہیں جن کے نام ہیں حضرت قاسم، حضرت عبداللہ اور حضرت ابراہیم رضوان اللہ علیہم اجمعین‘ جبکہ بعض نے کہا چوتھے صاحبزادے حضرت طیب اور پانچویں حضرت طاہر بتائے ہیں‘ اول الذکر اصحاب کی رائے کے مطابق طیب اور طاہر حضرت عبداللہ ہی کے القاب ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ساری اولاد ام المؤمنین سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالٰی عنہا کے بطن سے پیدا ہوئی‘ سوائے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے جو ام المؤمنین سیدہ ماریہ قبطیہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔
ام المؤمنین سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کی پہلی شادی ابو ہالہ ہند بن النباش بن زُرارہ التمیمی سے ہوئی جس سے دو بیٹے ہالہ اور ہند پیدا ہوئے۔ اس کے انتقال کے بعد آپ کی دوسری شادی عتیق بن عابد بن عبداللہ المخزومی سے ہوئی جس سے ایک بیٹا ہند بن عتیق پیدا ہوا۔ اس سے طلاق لینے (یا بعض روایات کے مطابق اس کی وفات) کے بعد آپ رضی اللہ عنہا کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوا۔
سالم، محمد، الخضر، لسيرة العطرة لأم المؤمنين خديجة: 13، الکویت، مبرة الال و الاصحاب، 2009
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چار صاحبزادیاں اور دو صاحبزادے رضوان اللہ علیہم اجمعین پیدا ہوئے۔ آپ کی صاحبزادیوں کے مختصر احوال درج ذیل ہیں:
سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا کے بطن سے سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے بڑی صاحبزادی ہیں۔ بعثت نبوی سے دس سال پہلے مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں۔ اعلان نبوت کے وقت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اسلام قبول فرمایا تو سیدہ زینب کی عمر دس سال تھی‘ اپنی والدہ کے ہمراہ مشرف بہ اسلام ہوئیں۔
البدایة وانهایة، ج: 3، ص: 113
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت ابوالعاص بن ربیع سے ہوا جو مکہ کے صا حب ثروت، شریف اور امانت دار شخص تھے۔ حضرت ابوالعاص سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے سگے بھانجے تھے۔ اعلانِ نبوت کے بعد مشرکین مکہ نے حضرت ابوالعاص کو اکسایا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کوطلاق دے دو اور قبیلہ قریش کی جس عورت سے نکاح کرنا چاہو ہم پیش کر سکتے ہیں۔ حضرت ابوالعاص نے سیدہ زینب کو طلاق دینے سے انکار کر دیا۔ شعب ابی طالب میں محصوری کے ایام میں بھی ابوالعاص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسرے محصورین کے لیے خوراک کی فراہمی کا بندوبست کرتے رہے‘ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ابوالعاص نے ہماری دامادی کی بہترین رعایت کی اور اس کا حق ادا کر دیا‘ حالانکہ حضرت ابوالعاص نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ حضرت ابوالعاص نے ہجرت کے چھٹے سال اسلام قبول کیا۔
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی اولاد میں ایک بیٹا علی بن ابوالعاص رضی اللہ عنہ اور ایک صاحبزادی امامہ بنت ابوالعاص رضی اللہ عنہا تھیں۔ جبکہ ایک صاحبزادہ صغر سنی میں ہی فوت ہوگیا۔ فتح مکہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی بن ابوالعاص رضی اللہ عنہ کو اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا ہوا تھا‘ ان کی شہادت یرموک کے معرکہ میں ہوئی، بعض روایات کے مطابق قریب البلوغ ہو کر طبعی موت سے وصال ہوا۔
ابن حجر عسقلانی، الاصابه، ج: 2، ص: 503
مکہ سے مدینہ ہجرت کے دوران سیدہ زینب رضی اللہ عنہا ہبار بن اسود کے نیزہ سے زخمی ہوئی تھیں‘ یہی زخم آپ کی وفات کا سبب بنا۔ اسی وجہ سے بعض اکابرین نے انہیں شہیدہ کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ ان کی تجہیز و تکفین کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا تہبند سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے کفن کے ساتھ رکھنے کے لیے دیا‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ کو خود قبر میں اتارا اور پھر فرمایا: قبر کی تنگی اور خوف ناکی میرے سامنے تھی اور زینب کی کمزوری اور ضعف بھی میرے سامنے تھا‘ اس بات نے مجھے رنجیدہ کیا۔ پس میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ زینب کے لئے اس حالت کو آسان فرما دیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے منظور فرما لیا اور زینب کے لئے آسانی فرما دی۔
الهیثمی، مجمع الزوائد، ج: 3، ص: 47
حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری صاحبزادی ہیں جو حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا تین سال چھوٹی ہیں۔ سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئیں۔ ان کی پیدائش کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک تقریبا تینتیس برس تھی۔ اعلان نبوت کے بعد سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی والدہ اور بڑی بہن کے ہمراہ اسلام قبول کیا۔
بعثت سے قبل سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ابولہب کے بیٹے عتبہ سے ہوا تھا مگر رخصتی ہونا باقی تھی۔ اعلانِ نبوت کے بعد پیغمبر اسلام کے راستہ میں رکاوٹ ڈالنے اور پیغام حق کے مقابلہ میں کفر اور شرک کی اشاعت کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ابولہب اور اس کی بیوی کی مذمت فرمائی تو ابولہب نے اپنے بیٹے کو رقیہ بنتِ محمد سے علیحدگی اختیار کرنے پر زور دیا‘ اس پر عتبہ بن ابولہب نے سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی۔ اس کے بعد مکہ مکرمہ میں ہی سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ساتھ کردیا گیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی بھیجی ہے کہ میں اپنی بیٹی رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کردوں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ ووآلہ وسلم نے آپ کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دیا اور ساتھ ہی رخصتی بھی کردی۔
نبوت کے پانچویں سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور ان کے ساتھ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ راہ خدا میں ہجرت کرنے والوں کا یہ پہلا قافلہ تھا‘ اس موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’یہ جوڑا کس قدر خوبصورت ہے۔‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرتِ مدینہ کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی زوجہ محترمہ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا سمیت مدینہ کی طرف دوسری ہجرت فرمائی۔ حبشہ میں قیام کے دوران اس مبارک جوڑے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی جس کا نام عبداللہ رکھا گیا‘ جس کی وجہ سے حضرت عثمان کی کنیت ابو عبداللہ مشہور ہوئی۔ حضرت عبداللہ کا وصال 6 سال کی عمر میں مدینہ منورہ میں ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ ادا فرمائی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قبر میں اتارا۔
ہجرت کے دوسرے سال غزوہ بدر رونما ہوا‘ اسی دوران سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا خسرہ سے بیمار ہوئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہا کو سیدہ رقیہ کی تیمار داری کے لئے مدینہ میں ہی مقیم رہنے کا فرمایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غزوہ بدر کے لیے روانہ ہونے کے بعد سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا انتقال پرملال ہوا۔ جب جب زید بن حارثہ غزوہ بدر کی فتح کی بشارت لے کر مدینہ منورہ پہنچے تو اس وقت حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کو دفن کرنے کے بعد دفن کرنے والے اپنے ہاتھوں سے مٹی جھاڑ رہے تھے۔
ابن سعد، طبقات، ج: 8، ص: 25
چند ایام کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو جنت البقیع میں قبر رقیہ پر تشریف لے گئے اور حضرت رقیہ کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی۔
حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تیسری بیٹی ہیں۔ یہ سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے چھوٹی ہیں۔ ان کی ولادت بھی سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئی۔
اعلان نبوت سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح اپنے چچا ابولہب کے بیٹے عتیبہ کے ساتھ کر دیا تھا‘ رخصتی ہونا باقی تھی کہ ابو لہب کے کہنے پر عتیبہ نے آپ کو طلاق دے دی۔ ہجرتِ مدینہ کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہلِ خانہ میں سے ام المؤمنین سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمۃ الزھرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا مکہ مکرمہ میں ہی رہ گئے۔ بعد ازاں حضرت ابو رافع اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما ان کو لینے آئے اور بحفاظت مدینہ طیّبہ پہنچایا۔
ابن کثیر، البدایه و النهایه، 3: 202
سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے وصال کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ ام کلثوم کا نکاح حضرت عثمانِ غنی سے کر دیا۔ روایات کے مطابق حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ یہ چھ سال تک حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں رہیں اور شعبان 9 ہجری کو ان کا وصال ہوا۔
ابن سعد، طبقات، 8: 52
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں۔ ان کی ولادت کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک اکتالیس سال تھی اور اعلانِ نبوت ہو چکا تھا۔ آپ کی پرورش اور تربیت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرتِ مدینہ کے بعد آپ رضی اللہ عنہا نے ام المؤمنن سیدہ سودہ بنتِ زمعہ اور بڑی بہن سیدہ ام کلثوم کے ساتھ حضرت زید بن حارثہ اور حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی حفاظت میں ہجرت فرمائی۔
ماہ رجب 2 ہجری میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کانکاح حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا، نکاح کے وقت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر اکیس یا چوبیس برس اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر پندرہ یا اٹھارہ برس تھی۔
تفسیر القرطبی، 41: 142
سید فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاں تین بیٹوں اور دو بیٹیوں کی پیدائش ہوئی، جن میں حضرت امامِ حسن، حضرت امام حسین، حضرت زینب کبریٰ، حضرت زینب کبریٰ (ام کلثوم) اور حضرت محسن رضی اللہ تعالیٰ عنہم شامل ہیں۔ حضرت محسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ صغر سنی میں وصال فرما گئے۔ سیدہ زینب کبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح حضرت عبداللہ بن جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا جبکہ حضرت زینبِ صغریٰ (ام کلثوم) رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے 17 ہجری کو ہوا۔ اس کی مزید وضاحت ’کیا سیدہ ام کلثوم بنت علی حضرت عمر کی زوجہ ہیں؟‘ میں ملاحظہ کیجیے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نہایت مغموم رہتی تھیں۔ یہی غم آپ کے لیے مرض الموت ثابت ہوا۔ بیماری کے دوران خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تیمارداری اور خدمات سرانجام دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے چھ ماہ بعد سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیمار ہوئیں اور چند روزہ بیماری کے بعد تین رمضان 11 ہجری‘ منگل کی شب اٹھائیس یا انتیس برس کی عمر مبارک میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا انتقال ہوا۔ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کی نمازِ جنازہ کی امامت کی اور سیدنا علی المرتضیٰ اور حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما سمیت کثیر صحابہ کرام جنازہ میں شریک ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہا کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی‘ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو قبر میں اتارا۔
ہم نے اختصار کے ساتھ بناتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات بیان کیے ہیں۔ تاریخ و حدیث کی کتب میں بیان کردہ بناتِ رسول کے یہ حالات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چار صاحبزدیاں ہیں۔ اسلامی تاریخ اور سیرت کی معتبر کتب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ساری اولاد کا نہ صرف ذکر ملتا ہے بلکہ ان کے مکمل حالات و واقعات بھی مذکور ہیں۔ مگر کچھ سیاسی و اعتقادی عوامل کی بناء پر ایسی غلط فہمیاں پیدا کی گئی ہیں جن سے یہ تاثرملتا ہے کہ شائد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک ہی بیٹی تھی۔ عامۃ الناس کی معتبر تاریخی مصادر و مراجع تک رسائی نہ ہونے کے سبب اس تاثر کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا ہے‘ حلانکہ اس کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔