نمازِ باجماعت میں اگر اگلی صف میں‌ بچے کھڑے ہوں‌ تو پچھلی صفوں میں نماز ادا کرنے کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:5109
السلام علیکم مفتی صاحب! کیا نماز کے ساتھ نوافل اور سننِ غیرمؤکدہ کی جگہ قضاء نمازیں پڑھی جاسکتی ہیں؟ اگر بچے اگلی صف میں‌ کھڑے ہوں‌ تو پچھلی صفوں میں نماز ادا کرنے والوں‌ کی نماز کا کیا حکم ہے؟ مزید یہ کہ امام کے پیچھے نمازیوں‌ کی کیا ترتیب ہونی چاہے؟

  • سائل: ذوہیب حسنمقام: فیصل آباد
  • تاریخ اشاعت: 18 اکتوبر 2022ء

زمرہ: نمازِ باجماعت کے احکام و مسائل

جواب:

آپ کے تینوں سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

1۔ اگر کسی وجہ سے نماز رہ جائے تو یاد آتے ہی فوراً اس کا ادا کرنا لازم ہے۔ اگر اس نماز کا وقت باقی ہو تو ادا ہوگی اور اگر وقت گزر گیا ہے اور اگلی نماز کا وقت شروع ہوگیا ہے فوت شدہ نماز قضاء پڑھی جائے گی۔ حدیثِ مبارکہ ہے:

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا رَقَدَ أَحَدُكُمْ عَنِ الصَّلَاةِ، أَوْ غَفَلَ عَنْهَا، فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا، فَإِنَّ اللهَ يَقُولُ: {أَقِمِ الصَّلَاةِ لِذِكسْرِي} [طٰهٰ، 20: 14]

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب نیند کی وجہ سے کسی شخص کی نماز رہ جائے یا غفلت سے نماز قضاء ہو جائے تو اُسے یاد آنے پر نماز پڑھ لینا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میری یاد کے لیے نماز پڑھو۔‘‘

مسلم، الصحیح، كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب قضاء الصلاة الفائتة واستحباب تعجيل قضائها، 1: 477، الرقم: 684، بيروت: دار إحياء التراث العربي

نمازِ پنجگانہ میں سے کسی فوت شدہ نماز کی قضاء پڑھتے ہوئے فرض اور واجب رکعات ہی پڑھی جائیں گی، سنن و نوافل کی قضاء نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر ظہر کی قضاء نماز ادا کرتے ہوئے چار فرض رکعات کی قضاء پڑھی جائے گی، سنن و نوافل ادا نہیں کیے جائیں گے۔ سنن و نوافل کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے، تاہم گزشتہ فوت شدہ نمازوں کی قضاء پڑھنا زیادہ ضروری ہے۔ فرض رکعات کے بارے میں قیامت کے دن سوال ہوگا، اس لیے فرائض و واجبات کی ادائیگی کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص سننِ غیرمؤکدہ اور نوافل کی بجائے اپنی پچھلی قضاء نمازیں پڑھتا ہے تو اس کا یہ عمل جائز ہے۔ وہ ہر نماز میں فرض اور سننِ مؤکدہ ادا کرنے کے بعد پچھلی نمازیں قضاء کرے تو جائز اور فائدہ مند عمل ہے۔

2۔ دورانِ نمازِ باجماعت صفوں میں بڑے افراد کے ساتھ چھوٹے بچے بھی کھڑے ہو جائیں تو نماز کی ادائیگی میں کوئی فرق نہیں آتا۔ ویسے بھی سمجھدار بچہ بڑوں کے ساتھ کھڑا ہوگا تو اس کی تربیت ہوگی۔ جس طرح بعض مساجد میں دیکھا گیا ہے کہ بچوں کو اگلی صفوں میں کھڑا نہیں ہونے دیا جاتا، بلکہ اگلی صفوں کھڑے بچوں کو نکال کر پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے، اس سے پہلا برا اثر تو یہ پڑتا ہے کہ بچوں کی دلشکنی ہوتی ہے اور اس عمل سے دوسری خرابی یہ ہوتی ہے کہ سارے بچے آخری صفوں میں اکٹھے ہوجاتے ہیں اور بجائے نماز ادا کرنے کے شرارتیں کرکے نماز میں خلل پیدا کرتے ہیں اور پھر بڑوں سے ڈانٹ کھا کر گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ اس سے بچوں کی تربیت کا عمل بھی فوت ہو جاتا ہے اور انہیں نماز کا شوق بھی پیدا نہیں ہوتا۔ نبی کریم ﷺ نے سات سال کی عمر کے بچوں کو نماز کی تربیت دینا والدین پر لازم کیا ہے، تو ضروری ہے کہ بچوں کو مسجد میں لایا جائے، انہیں مسجد اور نماز کے آداب سکھائے جائیں اور ان کے اندر نماز پڑھنے کا شوق پیدا کیا جائے۔ حدیثِ مبارکہ ہے:

عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيْهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: مُرُوْا أَوْلَادَکُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِيْنَ، وَاضْرِبُوْهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ، وَفَرِّقُوْا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ.

’’حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ بواسطہ والد اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تمہاری اولاد سات سال کی ہوجائے تو اسے نماز کا حکم دیا کرو، جب وہ دس سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو (نماز کی پابندی نہ کرنے پر) انہیں تادیباً سزا دو، اور (اس عمر میں) ان کے بستر الگ الگ کر دو۔‘‘

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 2: 187، الرقم: 6756، مصر: مؤسسة قرطبة
  2. أبو داود، السنن، کتاب الصلاة، باب متی يؤمر الغلام بالصلاة، 1: 133، الرقم: 494-495، بيروت: دارالفكر

اسی موضوع پر ایک اور روایت ہے کہ:

عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ الرَّبِيعِ بْنِ سَبْرَةَ عَنْ أَبِيْهِ عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: عَلِّمُوا الصَّبِيَّ الصَّلَاةَ ابْنَ سَبْعِ سِنِيْنَ وَاضْرِبُوْهُ عَلَيْهَا ابْنَ عَشْرٍ.

’’عبدالمالک بن ربیع بن سبرہ بواسطہ اپنے والد اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سات سال کے بچے کو نماز سکھاؤ اور دس سال کے بچے کو (نماز نہ پڑھنے پر) تادیباً سزا دو۔‘‘

الترمذي، السنن، کتاب الصلاة، باب ما جاء متی يؤمر الصبي بالصلاة، 2: 259، الرقم: 407، بيروت: دار إحياء التراث العربي

لہٰذا اگلی صفوں میں بچے کھڑے ہو جائیں تو پچھلی صفوں میں بڑوں کے نماز ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

3۔ اگر باجماعت نماز میں عورتیں بھی شامل ہوں تو پہلی صف میں مرد، ان سے پچھلی صف میں نابالغ بچے اور ان سے پیچھے عورتیں صف بنائیں گی۔ اس ترتیب کی دلیل کے طور پر چند روایات ذیل میں بیان کی جارہی ہیں:

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ جَدَّتَهُ مُلَيْكَةَ دَعَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِطَعَامٍ صَنَعَتْهُ لَهُ، فَأَكَلَ مِنْهُ، ثُمَّ قَالَ: قُومُوا فَلِأُصَلِّ لَكُمْ قَالَ أَنَسٌ: فَقُمْتُ إِلَى حَصِيرٍ لَنَا، قَدِ اسْوَدَّ مِنْ طُولِ مَا لُبِسَ، فَنَضَحْتُهُ بِمَاءٍ، فَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَفَفْتُ وَاليَتِيمَ وَرَاءَهُ، وَالعَجُوزُ مِنْ وَرَائِنَا، فَصَلَّى لَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ انْصَرَفَ.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی دادی حضرت مُلَیکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کھانے پر بلایا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے تیار کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تناول فرمایا۔ پھر ارشاد ہوا کہ کھڑے ہو جاؤ تاکہ میں تمہیں نماز پڑھاؤں۔ حضرت انس نے فرمایا کہ میں اپنی ایک چٹائی کی طرف اٹھا جو زیادہ عرصہ گزر جانے کے باعث کالی ہو گئی تھی۔ میں نے اس پر پانی چھڑکا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو گئے تو میں نے اور ایک یتیم نے آپ کے پیچھے صف بنا لی اور بوڑھی اماں ہمارے پیچھے تھیں۔ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں۔ پھر تشریف لے گئے۔‘‘

  1. البخاري، الصحيح، كتاب الصلاة، باب الصلاة على الحصير، 1: 149، الرقم: 373، بيروت: دار ابن كثير اليمامة
  2. مسلم، الصحيح، كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب جواز الجماعة في النافلة والصلاة على حصير وخمرة وثوب وغيرها من الطاهرات، 1: 457، الرقم: 658

ایک اور روایت جو امام نسائی رحمہ اللہ نے نقل کی ہے کہ:

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: صَلَّيْتُ إِلَى جَنْبِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَائِشَةُ خَلْفَنَا تُصَلِّي مَعَنَا، وَأَنَا إِلَى جَنْبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أُصَلِّي مَعَهُ.

’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو میں نماز پڑھی۔ ہمارے پیچھے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی شریک نماز تھیں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو میں آپ کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا۔‘‘

النسائي، السنن الكبرى، كتاب أبواب ثياب المصلي، الجماعة إذا كانوا ثلاثة رجل وامرأة وصبي، 1: 295، الرقم: 915، بيروت: دار الكتب العلمية

اسی طرح ایک روایت ابو داود رحمہ اللہ نے بھی نقل کی ہے جو یہ ہے:

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو مَالِكٍ الْأَشْعَرِيُّ: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ بِصَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَأَقَامَ الصَّلَاةَ، وَصَفَّ الرِّجَالَ وَصَفَّ خَلْفَهُمُ الْغِلْمَانَ، ثُمَّ صَلَّى بِهِمْ فَذَكَرَ صَلَاتَهُ، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا صَلَاةُ. قَالَ عَبْدُ الْأَعْلَى: لَا أَحْسَبُهُ إِلَّا قَالَ: صَلَاةُ أُمَّتِي.

’’عبد الرحمن بن غنم سے روایت ہے کہ حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز نہ بتاؤں؟ فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو پہلے مردوں کی صفیں بنائیں، ان کے پیچھے لڑکوں کی صفیں بنائیں، پھر آپ نے انہیں نماز پڑھائی، پھر آپ کی نماز کا ذکر کیا پھر فرمایا کہ نماز یہ ہوتی ہے۔ عبد الاعلیٰ نے کہا کہ میرے خیال میں فرمایا کہ میری امت کی نماز یہ ہے۔‘‘

أبو داود، السنن، كتاب الصلاة، باب مقام الصبيان من الصف، 1: 181، الرقم: 677

ان روایات کی روشنی میں فقہائے کرام نے نماز باجماعت میں صفوں کی ترتیب ملحوظ رکھنے کا حکم دیا ہے اور اس کا طریقہ وضع کیا ہے کہ پہلے مرد، پھر بچے اور آخر پر خواتین کی صف بنے گی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری