کیا دودھ کی معمولی مقدار سے بھی حرمتِ رضاعت ثابت ہوتی ہے؟


سوال نمبر:5082
السلام علیکم! مفتی صاحب میرا سوال یہ ہے کہ جب میں ایک دن کا تھا تو میری تائی نے مجھے دودھ پلایا۔ ان کے بقول انہوں‌ نے پانچ رضاعت سے کم دودھ پلایا تھا۔ اس کے تین سال بعد ان کی بیٹی پیدا ہوئی۔ کیا ان کی بیٹی میری رضاعی بہن ہوگی یا اس کے ساتھ میرا نکاح جائز ہے؟ میں‌ کہیں پڑھا ہے کہ پانچ رضاعت سے کم سے حرمت ثابت نہیں‌ ہوتی۔ راہنمائی کر دیں۔ شکریہ

  • سائل: ارباز مغلمقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 27 ستمبر 2018ء

زمرہ: احکام رضاعت

جواب:

فقہ حنفی کے مطابق اڑھائی سال سے کم عمر میں مطلقًا دودھ پینا حرمت رضاعت ثابت کر دیتا ہے‘ خواہ بچے نے چوس کر پیا ہو، اس کے حلق میں ٹپکایا گیا یا ناک کے ذریعے معدے تک پہنچایا گیا ہو‘ اگر ایک قطرہ دودھ بھی بچے کے پیٹ میں‌ پہنچ جائے تو حرمت ثابت ہو جاتی ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہ اور دیگر آئمہ احناف رحمھم اللہ علیہم کی دلیل قرآن کریم کی وہ آیتِ مبارکہ ہے جس میں محرم رشتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

وَأُمَّهَاتُكُمُ اللاَّتِي أَرْضَعْنَكُمْ.

اور تمہاری (وہ) مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو (حرام ہیں)۔

النساء، 4: 23

آیتِ کریمہ میں مخصوص مقدار کی شرط کے بغیر مطلق ’أَرْضَعْنَ‘ یعنی دودھ پلایا کہا گیا ہے‘ تین یا پانچ گھونٹ کی قید نہیں لگائی گئی۔ نیز اس کے بعد رضاعی بہن کی حرمت کے بیان میں بھی دودھ کی مقدار مشرط نہیں کی گئی بلکہ محض رضاعت سے اس کی حرمت کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:

وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ.

اور تمہاری رضاعت میں شریک بہنیں (بھی حرام ہیں)۔

النساء، 4: 23

یہاں بھی رضاعت مطلق ہے اور قرآنِ مجید کے مطلق کو خبرِ واحد سے مقید نہیں کیا جاسکتا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ ﷲَ حَرَّمَ مِنَ الرَّضَاعِ مَا حَرَّمَ مِنَ النَّسَبِ.

اللہ تعالیٰ نے جو (رشتہ) نسب سے حرام کیا وہی رضاعت سے حرام فرمایا۔

  1. ترمذي، السنن، 3: 452، رقم: 1146، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي
  2. أحمد بن حنبل، المسند، 1: 131، رقم: 1096، مصر: مؤسسة قرطبة

جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ الفاظ بھی مروی ہیں:

يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ.

’’رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔‘‘

  1. بخاري، الصحيح، 2: 935، رقم: 2502، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة
  2. احمد بن حنبل، المسند، 1: 339، رقم: 3144، مصر: موسسة قرطبة
  3. ترمذي، السنن، 3: 452، رقم: 1146، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي

اِن احادیثِ مبارکہ میں بھی مطلق رضاعت کو سبب حرمت قرار دیا گیا ہے‘ قلیل و کثیر مقدار کی کوئی تحدید نہیں کی گئی۔

درج بالا آیات و روایات کی روشنی میں آئمہ احناف نے یہ اصول اخذ کیا ہے کہ حرمتِ رضاعت کے ثبوت کے لئے اَیامِ رضاعت میں محض دودھ پی لینا کافی ہے‘ مقدار کی قلت و کثرت اس حکم میں کوئی تبدیلی نہیں کرتی۔ فقہ حنفی کی مستند ترین کتب المحيط البرہانی فی الفقہ النعمانی، زاد المسافر فی الفروع المعروف فتاویٰ تاتار خانیہ اور فتاویٰ قاضی خان میں اس بابت یہ الفاظ مذکور ہیں:

وقلیل الرضاع وکثیره سواء في إثبات الحرمة ؛ لأن المنصوص علیه فعل الإرضاع دون العدد. قال اللّٰہ تعالیٰ: وَاُمَّہَاتُکُمُ اللَّاتِيْ اَرْضَعْنَکُمْ

رضاعت سے حرمت کے ثبوت کے لیے قلیل و کثیر مقدار کا حکم ایک جیسا ہے۔ کیونکہ نص عدد کی شرط لگائے بغیر فعلِ رضاعت ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اور تمہاری (وہ) مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو (حرام ہیں)۔

 محمود بن أحمد، برهان الدين، الامام، المحیط، 4: 95

کنز الدقائق کی مشہور شرح تبیین الحقائق میں یہ روایت ذکر کی گئی ہے کہ:

قیل لابن عمر رضي اللّٰه عنهما إن ابن الزبیر یقول لا تحرم الرضعة ولا الرضعتان. فقال: قضاء اللّٰه تعالیٰ أولیٰ من قضاء ابن الزبیر. قال اللّٰه تعالیٰ: وَاُمَّهٰتُکُمُ اللاَّتِیْ اَرْضَعْنَکُمْ وَاَخَوَاتُکُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ.

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک یا دو مرتبہ دودھ پینے سے حرمتِ رضاعت ثابت نہیں ہوتی تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فیصلے ابن زبیر سے بہتر ہیں اور پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ’اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے‘

فخرالدين الزيلعي، عثمان بن علي، تبیین الحقائق، 2: 631

فتاویٰ عالمگیری میں اس مسئلے کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:

قلیل الرضاع وکثیره إذا حصل في مدة الرضاع تعلق به التحریم. کذا في الهدایة.

دودھ کی قلیل یا کثیر مقدار اگر مدتِ رضاعت کے اندر ثابت ہوگئی تو حرمت کا حکم لگے گا۔ یہی الہدایہ میں بھی ہے۔

نظام الدین و جماعته، الفتاویٰ الهندیة، 1: 342

ان تمام دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ اڑھائی سال سے کم عمر میں ایک قطرہ دودھ بھی اگر پیٹ‌ میں پہنچ جائے تو حرمتِ رضاعت ثابت ہو جاتی ہے۔ اس لیے جس عورت نے آپ کو دودھ پلایا وہ آپ کی رضاعی ماں‌ اور اس کی بیٹی آپ کی رضاعی بہن ہے۔ اس کے ساتھ آپ کا نکاح جائز نہیں‌ ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری