بیوی کی تادیبِ جسمانی کے بارے میں شریعت کا کیا‌ حکم ہے؟


سوال نمبر:5055
السلام علیکم! بیوی کو مارنے کی شرعی حیثیت کیا ہے اور وہ کون کون سے حالتیں ہیں جس میں عورت کو یعنی بیوی کو مارنا جائز ہے؟ اور اگر اس حوالے سے کوئی حدیث پاک ہے تو اس کی بھی وضاحت فرمادیں۔ شکریہ

  • سائل: محمد اویسمقام: پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 31 اکتوبر 2018ء

زمرہ: معاشرت  |  زوجین کے حقوق و فرائض

جواب:

اسلامی نظامِ معاشرت میں گھر کی مثال ایک چھوٹی سی ریاست کی ہے جس کی سربراہی قدرت اور فطرت نے شوہر کو سونپی ہے‘ بیوی اس ریاست میں شوہر کی معاون اور اس کے مال و آبرو کی محافظ ہے۔ اگر کسی موقع پر بیوی کے رویے میں اس ایسا بگاڑ آ جائے کہ اس ’ریاستِ خاندانی‘ کی ٹوٹ پھوٹ کا اندیشہ پیدا ہو جائے تو ازدواجی زندگی بچانے کی خاطر قرآنِ حکیم نے شوہر کے لیے چند اقدامات اور تدابیر تجویز کی ہیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں قرآنِ مجید کا ارشاد ہے:

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّهُ وَاللاَّتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلاَ تَبْغُواْ عَلَيْهِنَّ سَبِيلاً إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيراً.

مرد عورتوں پر محافظ و منتظِم ہیں اس لئے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے (بھی) کہ مرد (ان پر) اپنے مال خرچ کرتے ہیں، پس نیک بیویاں اطاعت شعار ہوتی ہیں شوہروں کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت کے ساتھ (اپنی عزت کی) حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں۔ اور تمہیں جن عورتوں کی نافرمانی و سرکشی کا اندیشہ ہو تو اُنہیں نصیحت کرو اور (اگر نہ سمجھیں تو) اُنہیں خواب گاہوں میں (خود سے) علیحدہ کر دو اور (اگر پھر بھی اِصلاح پذیر نہ ہوں تو) اُن سے (تادیباً) عارضی طور پر الگ ہو جاؤ؛ پھر اگر وہ (رضائے الٰہی کے لیے) تمہارے ساتھ تعاون کرنے لگیں تو ان کے خلاف کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔ بیشک اللہ سب سے بلند سب سے بڑا ہے۔

النساء، 4: 34

گویا اس آیتِ مبارکہ میں بیوی کی سرکشی عملاً واقع ہونے یا اس کے اندیشے کے پیشِ نظر شوہر سے کہا گیا ہے کہ اولاً بیوی کو سمجھائے، اگر سمجھانے بجھانے سے اس کی سرکشی ختم نہ ہو تو دوسری تدبیر اختیار کرتے ہوئے اس کا بستر الگ کر دے اور اس سے عملِ مباشرت روک دے۔ اگر ان دونوں اقدامات سے بھی سرکشی کا سدِباب نہ ہو تو تادیباً اس سے علیحدگی اختیار کر لی جائے تاکہ اسے اپنی غلطی کا احساس ہو‘ یہ اس کی آخری اور حتمی سزا ہے۔ لفظ ’وَاضْرِبُوْهُنَّ‘ سے یہاں مراد بیوی کو سزا کے طور پر الگ کرنا ہے۔ اگر یہ تمام تدابیر اختیار کرنے کے بعد بھی مسئلہ حل نہ ہو پائے تو اگلی آیتِ مبارکہ میں فرمایا گیا ہے:

وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُواْ حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلاَحًا يُوَفِّقِ اللّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا.

اور اگر تمہیں ان دونوں کے درمیان مخالفت کا اندیشہ ہو تو تم ایک مُنصِف مرد کے خاندان سے اور ایک مُنصِف عورت کے خاندان سے مقرر کر لو، اگر وہ دونوں (مُنصِف) صلح کرانے کا اِرادہ رکھیں تو اللہ ان دونوں کے درمیان موافقت پیدا فرما دے گا، بیشک اللہ خوب جاننے والا خبردار ہے۔

النساء، 4: 35

یعنی شوہر کے تمام تدابیر کارگر ثابت نہ ہونے پر میاں بیوی کی ازدواجی زندگی بچانے کے لیے دونوں خاندانوں کے لوگ ان کے درمیان الجھاؤ ختم کرنے کی کوشش کریں۔ اگر یہ کوشش بھی بیکار رہے اور میاں بیوی کی نفرت خود کو یا دوسرے کو ہلاک کرنے تک پہنچ جائے تو مارپیٹ کرنے اور تشدد کا راستہ اپنانے کی بجائے آخری قدم کے طور پر شوہر بیوی کو ایک طلاقِ رجعی دے۔ اگر دورانِ عدت معاملات درست ہو جائیں تو ٹھیک ورنہ طلاق کی عدت مکمل ہونے پر ان کا نکاح ختم ہو جائے گا اور بیوی کسی دوسرے مرد سے نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔ خاندان چلانے اور بچانے کا یہی مہذب اور درست طریقہ ہے‘ مارپیٹ، تشدد اور گالم گلوچ کی نہ فطرت اجازت دیتی ہے اور نہ اسلام اس کا حکم دیتا ہے۔ حضرت عبداﷲ بن زمعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کريم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:

لاَ يَجْلِدُ أَحَدُكُمُ امْرَأَتَهُ ثُمَّ يُجَامِعُهَا فِي آخِرِ اليَوْمِ.

تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو نہ پیٹے کہ پھر دن ختم ہو تو اس سے مجامعت کرنے بیٹھ جائے۔

بخاري، الصحيح، كتاب النكاح، باب ما يكره من ضرب النساء وقول الله (واضربوهن) أي ضربا غير مبرح، 5: 1997، رقم: 4908، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة

اور حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما ایک طویل حدیث مبارکہ روایت کرتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خطبہ حجۃ الوداع بیان کیا گیا ہے۔ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

فَاتَّقُوا اللهَ فِي النِّسَاءِ، فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانِ اللهِ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللهِ، وَلَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ، فَإِنْ فَعَلْنَ ذَلِكَ فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ، وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ.

تم لوگ عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو، کیونکہ تم لوگوں نے ان کو اللہ تعالیٰ کی امان میں لیا ہے، تم نے اللہ تعالیٰ کے کلمہ (نکاح) سے ان کی شرمگاہوں کو اپنے اوپر حلال کر لیا ہے، تمہارا ان پر حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کا آنا تمہیں ناگوار ہو، اگر وہ ایسا کریں تو تم ان کو اس پر ایسی سزا دو جس سے چوٹ نہ لگے! اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ تم اپنی حیثیت کے مطابق ان کو خوراک اور لباس فراہم کرو۔

مسلم، الصحیح، كتاب الحج، باب حجة النبي، 2: 889-890، رقم: 1218، بیروت: دار إحیاء التراث العربی

درج بالا آیات و روایات سے واضح ہوتا ہے کہ بيويوں پر تشدد کا نہ حکم ہے اور نہ یہ عمل پسندیدہ ہے۔ بیوی کی سرکشی کی صورت میں مار كے علاوہ دیگر تدابیر اختیار کرنا ہی مشروع و مندوب ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری