یزید بن معاویہ کے بارے میں امام اعظم کا موقف کیا تھا؟


سوال نمبر:5054
میرا سوال ہے یہ کہ امام اعظم رضی اللہ عنہ نے یزید کے بارے میں کیا موقف ہے؟

  • سائل: عادل احمد شیخمقام: جموں‌ و کشمیر
  • تاریخ اشاعت: 31 اکتوبر 2018ء

زمرہ: اسلامی تاریخ

جواب:

حضرت امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اہلِ بیت اطہار علیہم السلام سے بےپناہ محبت کرتے تھے۔ محبتِ آلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سبب آپ کو بنوامیہ کے حکمرانوں اور عمّال نے قید و بند کی صعوبتوں سے گزرا اور آپ پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ یہاں تک کہ جیل میں ہی آپ کو زہر دیکر شہید کر دیا گیا۔ آپ کے بارے میں یہ گمان قطعی غلط ہے کہ آپ نے یزید کے معاملے میں خاموشی اختیار کرنے کا کہا ہے‘ کسی مستند کتاب میں امام اعظم کا ایسا کوئی مؤقف نہیں ملتا۔ ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ بنوامیہ کے عامل (گورنر) یزید بن عمرو کے دور میں آپ کو کوڑے لگائے جا رہے تھے تو عامل کے ایک خوشامدی نے کہا: ’ان سے یزید کے بارے میں سوال کرو‘ اس موقع پر آپ خاموش رہے۔ لیکن اس خاموشی کو آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مؤقف کیونکر سمجھا جاسکتا ہے؟ آپ نے اموی بادشاہت کی مخالفت کی، ان سے جنگ کرنے کو چالیس نفلی حجوں سے زیادہ ثواب والی عبادت قرار دیا، شورشوں میں آلِ فاطمہ کا ساتھ دیا تو آلِ فاطمہ کے قاتلِ اعظم پر خاموشی کیسے اختیار کرسکتے ہیں؟ عظیم مؤرخ ابو العباس شمس الدین احمد بن محمد بن ابراہیم بن ابو بکر ابن خلکان اپنی کتاب تاریخ ابن خلکان المعروف وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان میں بیان کرتے ہیں:

وَسُئِلَ الْكِيَّا أَيْضًا عَنْ يَزِيْدِ بْنِ مَعَاوِيَةَ فَقَالَ إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ مِنَ الصَّحَابَةِ لِأَنَّهُ وُلِدَ فِيْ أَيَّامِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه وَأَمَّا قَوْلُ السَّلَفِ فَفِيْهِ لِأَحَمَدَ قَوْلَانِ تَلْوِيْحٌ وَتَصْرِيْحٌ وَلِمَالِكِ قَوْلَانِ تَلْوِيْحٌ وَتَصْرِيْحٌ وَلِأَبِيْ حَنِيْفَةَ قَوْلَانِ تَلْوِيْحٌ وَتَصْرِيْحٌ وَلَنَا قَوْلٌ وَاحِدٌ التَّصْرِيْحُ دُوْنَ التَّلْوِيْحِ وَكَيْفَ لَا يَكُوْنُ كَذَلِكَ وَهُوَ الْلَاعِبُ بِالنَّرْدِ وَالْمُتَصَيِّدُ بِالْفَهُوْدِ وَمُدْمِنُ الْخَمْرِ وَشِعْرُهُ فِيْ الْخَمْرِ مَعْلُوْمٌ.

الکیّا سے بھی یزید بن معاویہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ یزید صحابی نہیں تھا کیونکہ وہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے ایام خلافت میں پیدا ہوا تھا۔ رہاسلف کا قول اس پر لعنت کے بارے میں تو امام احمد رحمہ اللہ کے اس بارے میں دو قول ہیں۔ ایک میں اس کے ملعون ہونے کی طرف اشارہ ہے دوسرے میں اس کی تصریح ہے اور امام مالک رحمہ اللہ کے بھی دو قول ہیں ایک میں اس پر لعنت کا اشارہ اور دوسرے میں تصریح ہے۔ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بھی اس کے بارے میں دو قول ہیں۔ ایک میں اس پر لعنت کا اشارہ ہے اور دوسرے میں یزید پر لعنت کی تصریح ہے۔ اور ہمارا تو بس ایک ہی قول ہے جس میں اس پر لعنت کی تصریح ہے، اشارہ کنایہ کی بات نہیں اور وہ کیوں ملعون نہ ہو گا حالانکہ وہ نرد کھیلتا تھا، چیتوں سے کھیلا کرتا تھا۔ شراب کا رسیا تھا، شراب کے بارے میں اس کے اشعار سب کو معلوم ہیں۔

ابن خلكان، وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان، 3: 287، لبنان: دار الثقافة

اور سلیمان بن محمد بن عمر بجیرمی مصری شافعی اپنی کتاب تحفة الحبيب على شرح الخطيب میں لکھتے ہیں:

أَنَّ لِلْإِمَامِ أَحْمَدَ قَوْلًا بِلَعْنِ يَزِيدَ تَلْوِيحًا وَتَصْرِيحًا وَكَذَا لِلْإِمَامِ مَالِكٍ وَكَذَا لِأَبِي حَنِيفَةَ وَلَنَا قَوْلٌ بِذَلِكَ فِي مَذْهَبِ إمَامِنَا الشَّافِعِيِّ وَكَانَ يَقُولُ بِذَلِكَ الْأُسْتَاذُ الْبَكْرِيُّ. وَمِنْ كَلَامِ بَعْضِ أَتْبَاعِهِ فِي حَقِّ يَزِيدَ مَا لَفْظُهُ زَادَهُ اللَّهُ خِزْيًا وَمَنَعَهُ وَفِي أَسْفَلِ سِجِّيْنَ وَضَعَهُ وَفِي شَرْحِ عَقَائِدِ السَّعْدِ يَجُوزُ لَعْنُ يَزِيدَ.

یزید پر اشارتاً اور واضح طور پر لعنت کرنے کے متعلق امام احمد کے اقوال موجود ہیں اور یہی صورتحال امام مالک اور ابو حنیفہ کی بھی ہے اور ہمارے امام شافعی کا مذہب بھی یہی ہے اور البکری کا قول بھی یہی ہے۔ البکری کے بعض پروکاروں نے کہا ہے کہ اللہ یزید اور اس کے لشکر کی رسوائی میں اضافہ کرے اور اسے جہنم کے نچلے ترین درجہ پر رکھے۔

البجيرمي، تحفة الحبيب على شرح الخطيب، 12: 369، بيروت: دار الفكر

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دیگر آئمہ اہلِ سنت کی طرح امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بھی یزید پر لعنت کے قائل تھے اور اسے مستحقِ لعنت گردانتے تھے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری