جواب:
جو جائیداد آپ کے دادا نے اپنی زندگی میں آپ کو دی تھی وہ آپ کے لیے ہبہ ہے اور اب آپ کی ہی ملکیت ہے۔ حضرت جابر سے مروی حدیثِ مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں کیے جانے والے ہبہ کو درست قرار دیا ہے:
قَضَى النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم بِالعُمْرَى أَنَّهَا لِمَنْ وُهِبَتْ لَهُ.
عمریٰ (زندگی کے لیے ہبہ) کے بارے میں فیصلہ فرمایا کہ یہ اسی کا ہے جس کو ہبہ کیا گیا ہے۔
بخاري، الصحیح، كتاب الهبة وفضلها، باب ما قيل في العمرى والرقبى أعمرته الدار فهي عمرى جعلتها له (واستعمركم فيها) جعلكم عمارا، 2: 925، رقم: 2482، بیروت، لبنان: دار ابن كثير اليمامة
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ہی ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أَيُّمَا رَجُلٍ أُعْمِرَ عُمْرَى لَهُ وَلِعَقِبِهِ، فَإِنَّهَا لِلَّذِي أُعْطِيَهَا، لَا تَرْجِعُ إِلَى الَّذِي أَعْطَاهَا، لِأَنَّهُ أَعْطَى عَطَاءً وَقَعَتْ فِيهِ الْمَوَارِيثُ.
جس شخص کو او ر اس کے وارثوں کو تاحیات کوئی چیز دی گئی سو یہ چیز اسی کے لیے ہے جس کو دی گئی ہے وہ چیز دینے والے کی طرف نہیں لوٹے گی کیونکہ اس نے ایسی چیز دی ہے جس میں وراثت جاری ہوگی۔
مسلم، الصحیح، كتاب الهبات، باب العمرى ، 3: 1245، رقم: 1625، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي
اس لیے جب کوئی اپنی کسی چیز کو زندگی میں ہبہ کر دے تو وہ اسی کی ملکیت ہو جاتی ہے جس کو ہبہ کی گئی ہو اور پھر اس چیز کو ہبہ کرنے والے کی وراثت شمار نہیں کیا جاتا۔ علامہ شامی فرماتے ہیں:
وَتَتِمُّ الْهِبَةُ بِالْقَبْضِ الْکَامِلِ.
اور ہبہ کامل قبضہ سے مکمل ہوجاتا ہے۔
ابن عابدین شامي، ردالمحتار، 8: 435، بیروت: دارلفکر
لہٰذا یہ جائیداد اب آپ کی ملکیت ہے۔ آپ زندگی میں اسے فروخت کر کے جہاں چاہیں استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ جائیداد آپ کے دادا کی وراثت کے طور پر تقسیم نہیں ہوگی اس لیے کوئی دوسرا وارث اس میں شریک بھی نہیں ہے۔ آپ کے بقول آپ کے دادا نے آپ کی سگی بہن کے لیے ہبہ نہیں کیا‘ اس لیے ہمارا مشورہ ہے کہ آپ اس بہن کو مناسب حصہ دیں تاکہ وہ محروم نہ رہے۔ علاوہ ازیں اس ہبہ شدہ جائیداد میں کوئی آپ کے ساتھ شریک نہیں ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔