جواب:
کسی بھی عاقل و بالغ لڑکے یا لڑکی پر نکاح کے سلسلے میں جبر نہیں کیا جاسکتا۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ.
تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں۔
النساء، 4: 3
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا تُنْكَحُ الْأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ وَلَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ.
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: غیر شادی شدہ کا نکاح اس سے پوچھے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا بغیر اجازت نکاح نہ کیا جائے"۔
بخاری، الصحيح، كتاب النكاح، باب لا ينكح الأب وغيره البكر والثيب إلا برضاها، 5: 1974، رقم: 4843، بيروت: دار ابن کثير اليمامة
مسلم، الصحيح، كتاب النكاح، باب استئذان الثيب في النكاح بالنطق والبكر بالسكوت، 2: 1036، رقم: 1419، بيروت: دار إحياء التراث العربی
معلوم ہوا قرآن وحدیث میں زبردستی شادی کی گنجائش نہیں ہے، نکاح کے لیے لڑکے اور لڑکی کا رضامند ہونا ضروری ہے۔ اگر کسی لڑکے یا لڑکی پر تشدد یا ایسا جبر کر کے نکاح قبول کرنے پر مجبور کیا جائے جس میں جسمانی یا دیگر قسم کا نقصان پہنچنے کا یقین کی حد تک اندیشہ ہو تو ایسا نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوگا۔ نکاح گواہوں کی موجودگی میں لڑکے اور لڑکی کی باہمی رضامندی سے حق مہر کے عوض ہونے والے ایجاب و قبول سے منعقد ہوتا ہے۔
زیرِ بحث مسئلہ میں اگرچہ لڑکی اس رشتے سے خوش نہیں تھی مگر ماں کے کہنے پر اس نے یہ نکاح قبول کیا اور نکاح نامے پر بغیر تشدد کے (ناپسندیدگی سے ہی سہی، بہرحال) دستخط کر دیے اور اس کے بعد بیوی کی حیثیت سے علانیہ طور پر شوہر کے گھر آ گئی تو اس نکاح کے انعقاد میں کوئی شک نہیں رہا۔ ماں کی قسم ایسا جبر نہیں ہے کہ جو نکاح کے انعقاد میں مانع ہو۔ اگر لڑکی اس نکاح سے خوش نہیں ہے تو شوہر سے طلاق کا مطالبہ کر سکتی ہے یا بذریعہ عدالت تنسیخِ نکاح کروا سکتی ہے۔ لیکن جب تک شوہر طلاق نہ دے یا عدالت تنسیخِ نکاح نہ کر دے‘ لڑکی اسی شوہر کے نکاح میں ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔