جواب:
پاکستان جیسی خالصتاً اسلامی بنیادوں پر تشکیل پانے والی اور مسلم اکثریتی ریاست میں کسی غیرمسلم کو کلیدی عہدہ دینے کی کبھی حمایت نہیں کی گئی بلکہ مختلف مواقع پر اس کی مخالفت ہوتی رہی ہے، لیکن ایک عام غیرمسلم جو اپنے عقیدے کو اسلام کا نام دیکر دھوکہ دہی کا مرتکب نہ ہو رہا ہو‘ اس میں اور خود کو قادیانی، احمدی، مرزائی یا لاہوری کہلانے والے غیرمسلموں میں بہت فرق ہے۔ عقیدہ ختمِ نبوت کا انکار کرنے اور اسلام کے مدمقابل نیا دین پیش کرنے کے باوجود قادیانی خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں اور اپنے کفریہ عقائد کو باطل تاویلات کے ذریعہ اسلام باور کر کے اہلِ اسلام کی دل شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں ایسا کرنے والا شخص زندیق کہلاتا ہے، اور زندیق کا کفر انتہائی درجہ کا کفر ہے۔ اس لیے پاکستان کی مجلسِ شوریٰ نے 1974 میں متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا، بعد ازاں صدرِ پاکستان نے تعزیرات پاکستان میں دفعہ 298 بی اور 298 سی کا اضافہ کرتے ہوئے قادیانیوں کو شعائرِ اسلامی کے استعمال اور قادیانیت کی تبلیغ سے روک دیا۔ یاد رہے کہ اس قانون سازی سے تقریباً ایک سو سال قبل قادیانی عام مسلمانوں کو غیرمسلم قرار دے چکے تھے۔ قادیانیت کے مؤجد مرزا غلام احمد قادیانی کے مطابق جو مسلمان اس کی دعوت (یعنی قادیانیت ) کو قبول نہیں کرتا وہ غیرمسلم ہے، اس طرح قادیانیت کے پہلے خلیفہ مرزا بشیر نے لکھا ہے کہ غلام احمد قادیانی پر ایمان نہ لانے والے کافر ہیں اور ان سے کافروں والا سلوک کیا جائے۔
قادیانیوں کی نظر میں ریاستِ پاکستان کی مجلسِ شوریٰ نے 1974 کی قانون سازی کر کے ان پر ظلم کیا ہے، وہ آج بھی خود کو مسلمان کہتے ہیں بلکہ صرف خود کو ہی مسلمان سمجھتے ہیں، اہل اسلام ان کی نظر میں ظالم اور غاصب ہیں اور ان کا حق چھیننے والے ہیں۔ اس صورتحال میں کوئی بھی صاحبِ دانش قادیانیوں کی ریاستِ پاکستان سے وفاداری کو زیرغور لائے گا۔ یہی نہیں کہ ان کی وفاداری مشکوک ہے بلکہ وہ اہلِ پاکستان سے شدید نفرت بھی رکھتے ہیں۔ یہود و ہنود سے بڑھ کر اسلام کے خلاف سازشوں کے جال بُنتے ہیں، ان کی منافقانہ روش، اسلام سے بغض و عناد، اسلامیانِ پاکستان سے دشمنی اور دھوکہ دہی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ایسے لوگوں کو رازدار بنانے اور امور حکومت میں شامل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ بِطَانَةً مِّن دُونِكُمْ لاَ يَأْلُونَكُمْ خَبَالاً وَدُّواْ مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ.
اے ایمان والو! تم غیروں کو (اپنا) راز دار نہ بناؤ وہ تمہاری نسبت فتنہ انگیزی میں (کبھی) کمی نہیں کریں گے، وہ تمہیں سخت تکلیف پہنچنے کی خواہش رکھتے ہیں، بغض تو ان کی زبانوں سے خود ظاہر ہو چکا ہے، اور جو (عداوت) ان کے سینوں نے چھپا رکھی ہے وہ اس سے (بھی) بڑھ کر ہے۔ ہم نے تمہارے لئے نشانیاں واضح کر دی ہیں اگر تمہیں عقل ہو۔
آل عِمْرَان، 3: 118
کیا اس آیتِ مبارکہ میں بیان کردہ دشمنان اسلام کی نشانیاں بعینہ اس طبقہ میں موجود نہیں ہیں؟ اس سے اگلی آیت میں فرمایا:
هَاأَنتُمْ أُوْلاَءِ تُحِبُّونَهُمْ وَلاَ يُحِبُّونَكُمْ وَتُؤْمِنُونَ بِالْكِتَابِ كُلِّهِ وَإِذَا لَقُوكُمْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْاْ عَضُّواْ عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ قُلْ مُوتُواْ بِغَيْظِكُمْ إِنَّ اللّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ.
آگاہ ہو جاؤ! تم وہ لوگ ہو کہ ان سے محبت رکھتے ہو اور وہ تمہیں پسند (تک) نہیں کرتے حالانکہ تم سب کتابوں پر ایمان رکھتے ہو، اور جب وہ تم سے ملتے ہیں (تو) کہتے ہیں: ہم ایمان لے آئے ہیں، اور جب اکیلے ہوتے ہیں تو تم پر غصے سے انگلیاں چباتے ہیں، فرما دیں: مر جاؤ اپنی گھٹن میں، بیشک اللہ دلوں کی (پوشیدہ) باتوں کو خوب جاننے والا ہے۔
آل عِمْرَان، 3: 119
ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ دشمنِ اسلام و اسلامیان چاہے کتنا ہی ماہر و شہرت یافتہ ہو اسے کسی بھی حکومتی عہدے پر فائزہ کرنا شرعاً و عقلاً درست نہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔