کیا نماز میں دنیاوی خیالات کا آنا اسکی عدم قبولیت کی علامت ہے؟


سوال نمبر:5018
نماز کے دوران بار بار دنیاوی خیالات کا آ نا کیا نماز کی ناقبولیت کی نشانی ہے؟ اس سے بچنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

  • سائل: نوید انجممقام: جدہ
  • تاریخ اشاعت: 18 ستمبر 2018ء

زمرہ: نماز

جواب:

نماز مسلمان کے لئے سب سے قیمتی تحفہ ہے جو اسے دیگر مذاہب کے پیرو کاروں سے منفرد و ممتاز بناتی ہے۔ نماز ایسی عبادت ہے جو عابد و معبود کے درمیان احساسِ قربت کا ذریعہ ہے، بندہ مومن جب نماز ادا کرتا ہے تو وہ محض قیام و تلاوت اور رکوع و سجود نہیں کر رہا ہوتا بلکہ اپنے رب تعالیٰٰ سے ہمکلام ہوتا ہے، یہی انسانی ہستی کی معراج ہے۔

اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ حالتِ نماز میں خشوع و خضوع نہیں رہتا، انسان کا دھیان ادھر ادھر بھٹکنے لگتا ہے، دنیاوی خیالات دل و دماغ کو گھیر لیتے، انسان بظاہر ارکانِ نماز ادا کر رہا ہوتا ہے مگر اس کی توجہ کہیں اور ہوتی ہے۔ نماز میں وساوس یا دنیاوی خیالات کا آنا بہت عام ہے۔ اسی لیے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت سب سے پہلے جس شے سے محروم ہو گی وہ خشوع ہے۔ خشوع سے مراد وہ کیفیت ہے جس میں انسان کا دل شوقِ الٰہی سے بھرپور ہو، لبوں سے ادا ہونے والے الفاظ کا اظہار اعضائے جسمانی سے بھی ہو رہا ہو، جسم کعبہ کی طرف اور دل ربِ کعبہ کی طرف متوجہ ہو۔اگرچہ نماز میں دنیاوی خیالات یا وساوس آنے سے نماز کی صحت و قبولیت پر کوئی اثر نہیں ہوتا، یہ نماز کی عدم قبولیت یا رب تعالٰی کی ناراضگی کا باعث بھی نہیں ہیں۔ تاہم ان دنیاوی خیالات کو طول نہیں دینا چاہیے بلکہ فوراً جھٹک دینا چاہیے اور جہاں تک ممکن ہو کوشش کریں کہ نماز میں خشوع و خضوع برقرار رہے۔

دنیاوی خیالات آنے کی صورت میں نماز کی تلاوت قدرے بلند آواز میں کریں اس سے آپ کی توجہ خیالات سے ہٹ کر نماز کے الفاظ پر ہو جائے گی۔ مزید یہ کہ کچھ سورتوں یا آیات کا ترجمہ یاد کرلیں اور نماز میں ان کی تلاوت کریں۔ تلاوت کرتے ہوئے ان آیات کا ترجمہ بھی ذہن میں دوہراتے رہیں اس سے دھیان ادھر ادھر نہیں بھٹکے گا۔ نماز میں شیطانی وسوسوں اور دنیاوی خیالات سے بچنے اور خشوع و خضوع برقرار رکھنے کے لیے امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ تدبیر جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے:

نماز میں یکسوئی حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری