جواب:
آپ تمام فرض، واجب اور نفل نمازوں میں قرآن کریم کا وہی حصہ تلاوت کریں جو آپ کو حفظ یا زبانی یاد ہے۔ مزید سورتیں اور آیات یاد کرنے کی کوشش کریں۔ اگر نوافل میں طویل تلاوت کا دل چاہ رہا ہو تو ہر رکعت میں وہ تمام آیات اور چھوٹی سورتیں تلاوت کر لیں جو آپ کو یاد ہیں۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَاقْرَؤُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ.
پس جتنا آسانی سے ہو سکے قرآن پڑھ لیا کرو۔
الْمُزَّمِّل، 73: 20
حدیث مبارکہ میں بھی سورہ فاتحہ کے ساتھ جو قرآن سے میسر آئے یعنی جتنا آسانی سے یاد ہو وہی ملانے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت ابو سعید خذری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:
أَمَرَنَا نَبِیُّنَا أَنْ نَقْرَأَ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ وَمَا تَیَسَّرَ.
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم سورہ فاتحہ کے ساتھ جو قرآن کریم سے میسر ہو پڑھا کریں۔
فقہائے احناف کے نزدیک نماز میں مصحف سے دیکھ کر تلاوت کرنا، صفحہ پلٹنا اور رکوع و سجود کے لیے مصحف کو ایک طرف رکھنا عملِ کثیر ہے اور عمل کثیر سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ اور امام مرغینانی فرماتے ہیں:
إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ مِنْ الْمُصْحَفِ فَسَدَتْ صَلَاتُه، عِنْدَ أَبِي حَنِیفَةَ رَحِمَهُ اﷲُ وَقَالَا هِیَ تَامَّةٌ، لِأَنَّهَا عِبَادَةٌ انْضَافَتْ إلَی عِبَادَةٍ أُخْرَی، إلَّا أَنَّهُ یُکْرَهُ لِأَنَّهُ تَشَبُّہٌ بِصَنِیعِ أَهْلِ الْکِتَابِ، وَلِأَبِي حَنِیفَةَ رَحِمَهُ ﷲُ أَنَّ حَمْلَ الْمُصْحَفِ وَالنَّظَرَ فِیهِ وَتَقْلِیبَ الْأَوْرَاقِ عَمَلٌ کَثِیرٌ، وَلِأَنَّهُ تَلَقُّنٌ مِنْ الْمُصْحَفِ فَصَارَ کَمَا إذَا تَلَقَّنَ مِنْ غَیْرِهِ، وَعَلَی هَذَا لَا فَرْقَ بَیْنَ الْمَوْضُوعِ وَالْمَحْمُولِ، وَعَلَی الْأَوَّلِ یَفْتَرِقَانؤِ.
جب امام (یا عام نمازی) نے قرآن سے دیکھ کر قراء ت کی تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک نماز فاسد ہو جائے گی اور امام ابویوسف اور امام محمد نے کہا: یہ نماز مکمل ہے کیونکہ اس نماز کے ساتھ ایک اور عبادت مل گئی ہے، البتہ یہ نماز مکروہ ہے کیونکہ یہ اہل کتاب کے عمل کے مشابہ ہے اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی دلیل یہ ہے کہ مصحف کو اٹھانا اسکو پڑھنا اور اس کے اوراق پلٹنا عمل کثیر ہے اور اس لئے کہ اس میں قرآن سے لقمہ لینا ہے۔ لہٰذا یہ اُسی طرح ہوگیا جس طرح خارج از نماز شخص سے نماز میں لقمہ لیا جائے۔ اس اعتبار سے اس میں کوئی فرق نہیں ہے، خواہ مصحف کو اٹھایا ہو یا رکھا ہوا ہو، اور پہلے قول یعنی امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲ کے قول کے مطابق دونوں میں فرق ہے۔
مرغيناني، الهداية شرح البداية، 1: 62، المكتب الإسلامي
امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے نزدیک فرائض و نوافل تمام نمازوں میں مصحفِ قرآن سے دیکھ کر قرات کرنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے اور صاحبین رحمہما اﷲ کے ہاں کراہت کے ساتھ نماز ہو جاتی ہے مگر احناف کا فتویٰ امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے قول پر ہے۔
اس ممانعت کی کئی وجوہات جن میں سے صرف دو کا ہم ذکر کئے دیتے ہیں تاکہ مسئلہ پوری طرح واضح ہو جائے۔ اول یہ کہ اگر مصحفِ قرآن کو دائیں یا بائیں طرف رکھ کر اسے دیکھا جائے تو استقبالِ قبلہ نہیں رہتا‘ جبکہ قرآنِ مجید نے نماز کی بنیادی شرط یہ بیان کی ہے کہ:
فَوَلِّ وَجْهَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ.
آپ اپنا رخ مسجدِ حرام کی سمت کرلیں۔
البقرة، 2: 144
دوم یہ کہ قیام کی حالت میں نمازی کے لیے مستحب ہے کہ نگاہ سجدہ کی جگہ پر ہو کیونکہ اس سے دلجمعی پیدا ہوتی ہے اور خشوع و خضوع کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔ مصحف سے دیکھ کر تلاوت کرنے کی صورت میں نگاہ یقیناً قرآن مجید کے صفحات و حروف پر ہوگی، جس سے نماز کا یہ اہم ادب فوت ہوجائے گا۔ اس لیے مصحف سے دیکھ کر تلاوت کرنے کی بجائے نفلی نماز میں بھی زبانی تلاوت کریں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔