اسلام میں لڑکی والوں‌ کی طرف سے بارات لے جانے کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:4975
السلام علیکم! کیا اسلام میں‌ لڑکی والوں‌ کی طرف سے برات کا کوئی تصور ہے؟ ایک علامہ صاحب نے اپنی گفتگو میں اسے حرام قرار دیا ہے، کیا یہ درست ہے؟

  • سائل: عبداللہ شاہ ذیبمقام: بھوپال، ہندوستان
  • تاریخ اشاعت: 20 اگست 2018ء

زمرہ: معاشرت

جواب:

شریعتِ اسلامی میں حرام اُس شے کو کہا جاتا ہے جس کی ممانعت قرآنِ کریم یا حدیث متواترہ میں ایسی وضاحت اور دلالت کے ساتھ ثابت ہو جس میں شک کی کوئی گنجائش نہ رہ جائے، جیسے مردار، خون، خنزیر کا کھانا اور ناحق قتل، بدکاری، سود، شراب نوشی، والدین کی نافرمانی، غیبت اور جھوٹ کی ممانعت قطعی الثبوت اور قطعی الدلالہ ہے اس لیے یہ تمام امور اسلام میں حرام ہیں۔ اشیاء و امور کو حرام قرار دینے کا یہی بنیادی اصول ہے۔

آپ نے بتایا کہ لڑکی والوں کی طرف سے بارات لے جانے کسی صاحب نے حرام قرار دیا‘ لیکن کیا انہوں نے اس حرمت کی کوئی دلیل بھی دی ہے؟ کیا ان کی دلیل حرمت کے مذکورہ بالا اصول پر پورا اترتی ہے؟ یقیناً ایسا نہیں ہوگا۔ اہلِ علم کو‘ خاص طور پر جب وہ چیزوں کی حلت و حرمت بیان کر رہے ہوں‘ بہت سوچ سمجھ کر الفاظ کا چناؤ کرنا چاہیے۔ کسی کام کا شرعی حکم دلائلِ شرعیہ، حالات و واقعات اور مجبوریوں کو مدِنظر رکھ کر لگایا جانا چاہیے۔

اسلام عالمگیر دین ہے اور اس کے پیروکار دنیا کے ہر خطے میں بستے ہیں۔ دنیا کے ہر خطے میں شادی بیاہ کے رسوم و رواج مختلف ہوتے ہیں۔ اسلام علاقائی کلچر کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے‘ اگر علاقائی رسوم و رواج شریعت کے کسی واضح حکم کی خلاف ورزی پر مبنی نہ ہوں تو اسلام کو انسے کوئی تعارض نہیں۔ شادی بیاہ کے معاملے میں اسلام کا بنیادی اصول‘ شرعی قواعد و احکام کے ساتھ نکاح کا انعقاد ہے۔ نکاح کے لیے لڑکی والے بارات لیکر لڑکے کے گھر جائیں یا لڑکے والے بارات لیکر لڑکی کے گھر جائیں‘ دونوں صورتوں میں دو عاقل و بالغ مسلمان مرد گواہوں کی موجودگی میں حق مہر کے عوض ہونے والے ایجاب و قبول سے نکاح منعقد ہو جاتا ہے اور شادی بھی انجام پا جاتی ہے۔ اگرچہ مشرقی روایات میں لڑکے والے ہی بارات لیکر لڑکی کی گھر جاتے ہیں اور لڑکی بیاہ لاتے ہیں‘ لیکن یہ مشرقی روایت ہے‘ کوئی شرعی تقاضا نہیں ہے۔ اگر کسی سماج میں ایسا مروِّج نہیں ہے یا کسی مجبوری کے پیشِ نظر لڑکی والے لڑکے کے گھر آ کر نکاح کرتے ہیں تو نکاح منعقد ہو جاتا ہے۔ ہماری دانست میں اسے حرام قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی