السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ! حضرت مفتی صاحب میرے چند سوالات ہیں:
1۔ عید الاضحی کی نماز کا ٹائم کس وقت شروع ہوتاہے؟
2۔ کیا عید الاضحی کے دن اشراق وغیرہ یا کوئی نوافل پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
3۔ کیا صبح سورج طلوع کے 5 منٹ بعد عید الاضحی کی نماز پڑھی جا سکتی ہے یانہیں؟
ان تمام سوالوں کے جواب باحوالہ ارشاد فرمادیں۔
شکریہ
جواب:
آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:
1۔ عیدین کی نماز کا وقت‘ سورج کے مکمل طلوع ہونے پر شروع ہو جاتا ہے لیکن عید الفطر کی نماز میں تاخیر کرنا بہتر جبکہ عید الاضحی کی نماز جلدی ادا کرنے کا حکم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کو نجران میں حکم دیا:
عَجِّلِ الأَضْحَى وَأَخِّرِ الْفِطْرَ وَذَكِّرِ النَّاسَ.
عید الاضحی کی نماز جلدی ادا کرو اور عید الفطر کی نماز دیر سے ادا کرو اور لوگوں کو وعظ سناؤ۔
بيهقی، السنن الکبری، 3 : 282، رقم : 5944، مكة المكرمة: مكتبة دار الباز
اس لیے نماز فجر کا وقت ختم ہونے کے بعد طلوعِ آفتاب کا نتظار کیا جائے گا اور آفتاب کے مکمل طلوع ہو جانے پر نمازِ عید ادا کر سکتے ہیں۔
2۔ عید کے روز اشراق کے نوافل یا دیگر نفل نماز عیدگاہ کی بجائے گھر آکر ادا کرسکتے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:
أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم خَرَجَ يَوْمَ الفِطْرِ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا وَلاَ بَعْدَهَا وَمَعَهُ بِلاَلٌ.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید الفطر کے لیے تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں اور اُن سے پہلے یا بعد میں کوئی نماز نہ پڑھی اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے۔
بخاري، الصحيح، كتاب العيدين، باب الصلاة قبل العيد وبعدها، 1: 335، رقم: 945، بيروت، لبنان: دار ابن كثير اليمامة
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
كَانَ رَسُولُ صلی الله علیه وآله وسلم لَا يُصَلِّي قَبْلَ الْعِيدِ شَيْئًا، فَإِذَا رَجَعَ إِلَى مَنْزِلِهِ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ.
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید سے پہلے کوئی نماز نہ پڑھتے پھر گھر لوٹ کر دو رکعت پڑھتے۔
ابن ماجه، السنن، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في الصلاة قبل صلاة العيد وبعدها، 1: 410، رقم: 1293، بيروت: دار الفكر
علامہ علی بن سلطان محمد القاری رحمہ اللہ، مذکورہ بالا احادیث کی شرح میں نفل کرتے ہیں:
قَالَ ابْنُ الْهُمَامِ: هَذَا النَّفْيُ مَحْمُولٌ عَلَى الْمُصَلَّى لِخَبَرِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وآله وسلم لَا يُصَلِّي قَبْلَ الْعِيدِ شَيْئًا، فَإِذَا رَجَعَ إِلَى مَنْزِلِهِ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ. قَالَ ابْنُ حَجَرٍ: وَلَا يُكَرَهُ لِلْقَوْمِ التَّنَفُّلُ قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا فِي غَيْرِ الْوَقْتِ الْمَنْهِيِّ عَنْهُ لِفِعْلِ أَنَسٍ وَغَيْرِهِ ذَلِكَ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ. وَيُكْرَهُ ذَلِكَ تَنْزِيهًا لِمَنْ يَسْمَعُ الْخُطْبَةَ لِإِعْرَاضِهِ بِهِ عَنِ الْخَطِيبِ بِالْكُلِّيَّةِ، وَعَنْ مَالِكٍ وَأَحْمَدَ: أَنَّهُ لَا يُصَلِّي قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا، وَعَنْ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّهُ يُصَلِّي بَعْدَهَا لَا قَبْلَهَا.
ابن ہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت کی بنا پر نفی عید گاہ کے ساتھ خاص ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید سے پہلے کوئی نماز نہیں پڑھتے تھے جب گھر لوٹ آتے تو دو رکعات پڑھا کرتے تھے۔ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کے لیے عید کی نماز سے پہلے یا اس کے بعد نفل پڑھنا مکروہ نہیں ہے کیونکہ بیہقی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کا یہی فعل نقل کیا ہے۔ البتہ ممنوع وقت سے اجتناب کیا جائے۔ اور امام کے خطبہ کے دوران نفل پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے کہ اس کی وجہ سے امام سے اعراض ہو جاتا ہے۔ امام مالک اور امام احمد کا مسلک یہ ہے عید کی نماز سے پہلے اور بعد میں نوافل نہیں پڑھ سکتا، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بعد میں پڑھ سکتا ہے پہلے نہیں پڑھ سکتا۔
ملا علي قاري، مرقاة المفاتيح، 3: 482، بيروت، لبنان: دار الكتب العلمية
علامہ مرغینانی فرماتے ہیں:
وَلَا يَتَنَفَّلُ فِي الْمُصَلَّى قَبْلَ الْعِيدِ لِأَنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ مَعَ حِرْصِهِ عَلَى الصَّلَاةِ، ثُمَّ قِيلَ الْكَرَاهَةُ فِي الْمُصَلَّى خَاصَّةً، وَقِيلَ فِيهِ وَفِي غَيْرِهِ عَامَّةً؛ لِأَنَّهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ لَمْ يَفْعَلْهُ.
اور کوئی شخص نماز عید سے پہلے عید گاہ میں نفل نہ پڑھے، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی ایسا نہیں کیا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے بے حد شوقین تھے، پھر کہا گیا کہ یہ کراہت خاص کر عید گاہ میں ہے، اور دوسرا قول یہ ہے کہ عید گاہ اور اس کے علاوہ میں عام ہے، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا نہیں کیا ہے۔
مرغيناني، الهداية شرح البداية، 1: 85، المكتبة الاسلامية
درج بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ نمازِ عید کی ادائیگی کے بعد گھر لوٹ کر نفلی عبادات کر سکتے ہیں۔
3۔ سورج کے مکمل طلوع ہونے کے بعد نمازِ عید ادا کر سکتے ہیں، جیسا کہ اوپر وضاحت کی جا چکی ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔