السلام علیکم! مفتی صاحب ووٹ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اگر تمام امیدواروں میں سے کوئی بھی ووٹ کے قابل نہ ہو سب کے سب ہی کرپٹ ہوں یا امیدوار بذات خود تو صحیح ہے لیکن جس پارٹی سے اسکا تعلق ھے وہ کرپٹ ھے تو پھر دین یا شریعت کیا حکم دیتی ہے؟ نیز کیا ووٹ نہ دینے والا کسی قسم کی حق تلفی کا مرتکب تو نہیں ہوتا؟
جواب:
دینِ خدا نے اپنے پیروکاروں کے نظمِ اجتماعی کی بنیاد شورائیت پر رکھی ہے۔ شرعِ متین کی نگاہ میں ہر فرد اصلاً آزاد ہے‘ کوئی مطلق العنان بادشاہت اسے غلام نہیں بنا سکتی۔ معاشرے کے افراد اپنی انفرادی آزادیوں کو اجتماعی نظام میں ڈھالتے ہیں تو اپنے میں سے کسی ایک کو نظمِ اجتماعی چلانے کا اختیار سونپ دیتے ہیں۔ اسلام نے نظمِ اجتماعی و حکومت کے قیام میں مشاورت کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔ شوریٰ کا تصور اسلام سے قبل دورِ جاہلیت میں بھی تھا۔ اسلام نے اسے برقرار رکھا اور مطلق العنانی کے مقابلہ میں یہ اصول پیش کیا کہ مسلمانوں کے سیاسی و انتظامی معاملات ان کی رائے اور مشورے سے طے ہوں گے۔ قرآنِ مجید نے مشاورت کو اہلِ ایمان کی لازمی صفت شمار کیا ہے۔ ارشاد ہے:
وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ.
اور (اہل ایمان وہ ہیں) جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں۔
الشُّوْرٰی، 42: 38
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعدد مقامات پر شوریٰ کی فضیلت اور امت کے اجتماعی نظام کے لیے اس کی ضرورت اور اہمیت بیان فرمائی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جب تم میں سے بہتر لوگ تمہارے امیر ہوں ، تمہارے دولت مند بڑے دل والے ہوں اور تمہارے معاملات تمہارے درمیان مشورے سے طے ہوں تو زمین کے اوپر کا حصہ تمہارے حق میں اس کے نیچے کے حصے سے بہتر ہوگا۔‘‘
اسلام نے معاشرہ کے اندر یہ ذوق اور رجحان پیدا کیا ہے کہ ہر فرد اپنے ذاتی اور شخصی معاملات سے لے کر امورِ سیاست تک ہر معاملہ میں مشورے کا عادی ہو اور یہ چیز اس کے مزاج میں رچ بس جائے۔ مشاورت کا ایک خاص طریقہ لازم قرار دینے کی بجائے اسلام نے اسے حالات و ضرورت پر چھوڑ دیا۔ چنانچہ خلافتِ راشدہ کے دور میں اجتماعی مشاورت بیعت کے ذریعے ہوتی تھی اور اب یہ معاملہ انتخابات کے ذریعے ہوتا ہے اور ووٹ اس کا اہم ترین جزو ہے۔ جدید زمانے میں علماء نے ووٹ کو شہادت (گواہی)، امانت، وکالت، مشاورت، شفاعت (سفارش)، قضاء اور سیاسی بیعت کی حیثیت سے قیاس کیا ہے۔ ہمارے نزدیک ووٹ کی حیثیت مشاورت اور شہادت کی ہے۔
باہمی مشاورت سے حکومت کا قیام اور امورِ مملکت کو انجام دینا اسلام کا طرّہ امتیاز رہا ہے۔ اس اعتبار سے رائے دہندگان کے لیے ضروری ہے کہ باصلاحیت، قوم و ملت کے ہمدرد، اخلاق و کردار کے حوالے سے اچھی شہرت کے حامل اور فرض شناس کے حق میں ووٹ دیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّواْ الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا.
بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں.
النساء، 4: 58
جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ مشورہ دینے کے بارے میں امین ہے اور امانت کا تقاضہ یہ ہے کہ صحیح اور درست مشورہ دیا جائے۔ کسی ذاتی لالچ یا خود غرضی کے بدلے ظالم و جابر کو اختیار سونپنے کا مشورہ (ووٹ) دینا دنیا و آخرت میں خسارے کا سودا ہے۔
ہمارے نزدیک ووٹ کی دوسری حیثیت شہادت کی ہے۔ ووٹ شہادت خیال کرتے ہوئے ووٹر جس امیدوار کے حق میں ووٹ ڈال رہا ہے اس کے حق میں گویا گواہی دے رہا ہے کہ یہ امیدوار میرے علم کے مطابق اقتدار و اختیار کا دیگر امیدواروں کی نسبت زیادہ مستحق ہے۔
قرآن کریم نے جھوٹی شہادت کو حرام قرار دیا ہے اسی طرح سچی شہادت کو واجب اور لازم فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلّهِ وَلَوْ عَلَى أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللّهُ أَوْلَى بِهِمَا.
اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے (محض) اللہ کے لئے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ (گواہی) خود تمہارے اپنے یا (تمہارے) والدین یا (تمہارے) رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو، اگرچہ (جس کے خلاف گواہی ہو) مال دار ہے یا محتاج، اللہ ان دونوں کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے۔
النساء، 4: 135
ایک آیتِ مبارکہ میں سچی شہادت کا چھپانا حرام اور گناہ قرار دیا گیا ہے، ارشاد ہے:
وَلاَ تَكْتُمُواْ الشَّهَادَةَ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ.
اور تم گواہی کو چُھپایا نہ کرو، اور جو شخص گواہی چُھپاتا ہے تو یقینا اس کا دل گنہگار ہے،۔
البقره، 2: 283
شہادت و گواہی کے معاملے میں اسلام کا پسندیدہ عمل یہ ہے کہ کسی کے مطالبہ کرنے سے پہلے ہی انسان یہ فریضہ ادا کرے اور اس میں کسی کی دعوت یا ترغیب کا انتظار بھی نہ کرے۔حضرت زید بن خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الا اخبرکم بخیر الشهداء الذی یأتی بشهادته قبل أن یسألها.
کیا میں تمھیں نہ بتاؤں کہ بہترین گواہ کون ہے؟ بہترین گواہوہ شخص ہے، جو اپنی گواہی کسی کے مطالبہ کرنے سے پہلے ہی ادا کر دے۔
ووٹ کو شہادت کی حیثیت دینے سے اس قرآن و سنت کے وہ تمام احکام جاری ہوتے ہیں جو شہادت کے حوالے سے دیے گئے ہیں۔ اس لیے دین داری کا تقاضا ہے کہ ووٹ کا صحیح استعمال یقینی بنایا جائے۔
حاصلِ کلام یہی ہے کہ ووٹ ایک ملی و قومی ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری کو مفاد پرستی، سڑکوں، گلی کوچوں، کھمبوں، ٹرانسفارمروں اور آلوپیاز کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔ وطنِ عزیز میں دہائیوں سے یہ روش بن گئی ہے کہ انتخابات کا موسم آتے ہی مفادپرست اور طاقت و اقتدار کا بھوکا ٹولہ‘ مہنگائی، غربت، بےروزگاری اور افلاس کے مارے عوام کے ووٹوں کی خرید و فروخت شروع کر دیتا ہے۔ چند ٹکوں، مستقبل کے جھوٹے وعدوں اور لالچ میں ضمیر فروشی ہوتی ہے۔ نظامِ سیاست میں موجود خرابیوں کی دیگر وجوہات کے ساتھ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیانتدار اور ذمہ دار شہری عموماً ووٹ دینے ہی سے گریز کرتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے ضمیر فروشوں کے ووٹوں سے بدکردار اور خائن قوم پر مسلط ہو جاتے ہیں۔
اس لیے اگر حلقے میں کوئی نسبتاً بہتر اور قابل امیدوار ہے تو اسے ووٹ دینے سے گریز کرنا شرعاً ممنوع اور قوم و ملت پر ظلم کے مترادف ہے۔ اگر حلقے میں کوئی بھی امیدوار صحیح معنوں میں قیادت کے لائق اور دیانتدار نہیں ہے تو موجود امیدواروں میں سے کسی امیدوار کی ایک صلاحیت، کسی ایک خوبی کو مدِنظر رکھ کر تقلیل شر (کم برائی) کے خیال سے ووٹ دینا بھی جائز ہے۔ اس معاملہ میں یہ اصول ذہن نشین کر لیں کہ شخصی معاملات میں کسی فرد کی غلطی کا اثر صرف اسی فرد تک محدود رہتا ہے، اس کی سزا و جزا کا حقدار بھی وہی ہے۔ البتہ قومی و ملکی معاملات سے پوری قوم متاثر ہوتی ہے۔ آپ کا غلط انتخاب پوری قوم کو متاثر کر سکتا ہے اس لیے ووٹ مکمل ذمہ داری کے ساتھ کریں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔