جواب:
دو عاقل و بالغ مسلمان مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنا کر عاقل و بالغ لڑکے اور لڑکی کا باہمی رضامندی سے حق مہر کے عوض ایجاب و قبول کرنے سے نکاح منعقد تو ہو جاتا ہے لیکن نکاح کی تشہیر نہیں ہوتی جبکہ احادیثِ مبارکہ میں نکاح کی تشہیر پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ جیسے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ، وَاجْعَلُوهُ فِي المَسَاجِدِ، وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالدُّفُوفِ.
نکاح کی تشہیر کرو، مسجدوں میں نکاح کرو اور نکاح (شادی) پر دف بجاؤ!
ایک اور حدیث مبارکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أَعْلِنُوا هَذَا النِّکَاحَ وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالْغِرْبَالِ.
نکاح کا اعلان کیا کرو اور اس پر ڈھول بجایا کرو۔
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ میں شارع کی طرف سے نکاح کا اعلان کرنے، نکاح کی تقریب مسجد میں منعقد کرنے اور اس پر دف یا ڈھول بجانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور ایک حدیث میں تو حلال و حرام رشتے کے درمیان فرق دف اور گانے کو قرار دیا گیا ہے۔ حضرت محمد بن حاطب جمحی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
فَصْلُ مَا بَيْنَ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ الدُّفُّ وَالصَّوْتُ فِي النِّکَاحِ.
نکاح میں حلال و حرام (رشتے) کے درمیان فرق دف بجانا اور گانا ہے۔
اس حدیث مبارکہ میں صوت سے مراد ایسے گیت گانا ہے جو فحش اور لغو کلام پر مبنی نہ ہوں۔ اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک عورت کو نکاح کے بعد دلہن بنا کر ایک انصاری کے ہاں بھیجا۔ تو حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
يَا عَائِشَةُ، مَا كَانَ مَعَكُمْ لَهْوٌ؟ فَإِنَّ الأَنْصَارَ يُعْجِبُهُمُ اللَّهْوُ.
اے عائشہ! تمہارے پاس کھیل کود کا بندوبست نہیں؟ انصار کو کھیل کود پسند ہے۔
بخاري، الصحیح، كتاب النكاح ، باب النسوة اللاتي يهدين المرأة إلى زوجها ، 5: 1980، رقم: 4867، بيروت: دار ابن كثير اليمامة
مقصد یہ کہ شادی والے گھر گیت گانے اور کھیل کود سے نکاح کی تشہیر ہو گی تو لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ فلاں کا فلاں سے نکاح منعقد ہوا ہے۔ اسی طرح ایک روایت ہے:
عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّ رَجُلًا تَزَوَّجَ امْرَأَةً، فَأَسَرَّ ذَلِكَ، فَكَانَ يَخْتَلِفُ إِلَيْهَا فِي مَنْزِلِهَا، فَرَآهُ جَارٌ لَهَا يَدْخُلُ عَلَيْهَا، فَقَذَفَهُ بِهَا، فَخَاصَمَهُ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَذَا كَانَ يَدْخُلُ عَلَى جَارِيَةٍ، وَلَا أَعْلَمُهُ تَزَوَّجَهَا، فَقَالَ لَهُ: مَا تَقُولُ؟ فَقَالَ: تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً عَلَى شَيْءٍ دُونٍ فَأَخْفَيْتُ ذَلِكَ، قَالَ: فَمَنْ شَهِدَكُمْ؟ قَالَ: أَشْهَدْتُ بَعْضَ أَهْلِهَا، قَالَ: فَدَرَأَ الْحَدَّ عَنْ قَاذِفِهِ، وَقَالَ: أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ وَحَصِّنُوا هَذِهِ الْفُرُوجَ.
حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک آدمی نے کسی عورت سے خفیہ طور پر شادی کی، وہ اس کے گھر آیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ عورت کے ایک پڑوسی نے آدمی کو اس کے گھر آتے دیکھ لیا تو اس پر تہمت لگادی۔ یہ جھگڑا لے کر وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تہمت لگانے والے پڑوسی نے کہا کہ اے امیر المؤمنین! یہ شخص میری پڑوسن کے پاس آتا ہے اور مجھے ان کے نکاح کا کوئی علم نہیں ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس شخص کا بیان معلوم کیا تو اس نے کہا میں نے اس عورت سے خفیہ طور پر شادی کی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گواہوں کی بابت پوچھا تو اس نے کہا عورت کے کچھ رشتہ دار اس نکاح کے گواہ ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تہمت لگانے والے پر حد تو جاری نہ کی البتہ ان سے فرمایا کہ نکاح کو اعلانیہ کیا کرو اور شرمگاہوں کو پاکدامن رکھو۔
ابن أبي شيبة، المصنف، كتاب النكاح، ما قالوا في إعلان النكاح، 3: 495، رقم: 16397، الرياض: مكتبة الرشد
معلوم ہوا کہ شریعت میں نکاح کی تشہیر پر زور دیا گیا ہے اور خفیہ نکاح کی مذمت کی گئی ہے۔ درج بالا احکام کی روشنی میں کرائے کے دو عاقل و بالغ مسلمان گواہوں کی موجودگی میں آپ کا نکاح تو منعقد ہو گیا البتہ شریعت کی نظر میں آپ کا یہ عمل قابلِ مذمت ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔