کیا کھیلوں کی سرگرمیوں میں حصہ لینا یا کھیل دیکھنا لہو و لعب ہے؟


سوال نمبر:4946
السلام علیکم مفتی صاحب! عموماً عالم حضرات کرکٹ، فٹبال وغیرہ کا میچ دیکھنے اور کھیلنے سے منع فرماتے ہیں کہ اس سے مسلمان لہو و لعب میں مبتلا ہوتے ہیں اور اللہ کے ذکر سے غفلت ہوتی ہے۔ لیکن کوئی شخص ہر وقت عبادت میں مشغول نہیں رہ سکتا، اگر وہ چند گھنٹے کے لئے میچ دیکھ لے یا کھیل لے تو کیا یہ جائز ہوگا؟

  • سائل: شہریار بلوچمقام: پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 18 اگست 2018ء

زمرہ: کھیل

جواب:

اسلام مکمل ترين شریعت كا حامل‘ اعتدال پسند مذہب ہے، جو رہبانیت کی بجائے میانہ روی کے ساتھ زندگی کے ہر پہلو میں شرکت کو پسند کرتا ہے۔ یہ صدیوں سے دنیا کا زندہ نظام حیات ہے جس میں شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے تفننِ طبع اور زندہ دلی کی پوری گنجائش ہے۔ یہ فطرتِ انسانی سے ہم آہنگ‘ فطری مقاصد کو بروئے کار لانے والا دین ہے۔ اس میں نہ تو خود ساختہ ترکِ‌ دنیا کی گنجائش ہے، نہ ہی بے ہنگم تَقَشُّف اور جوگ کی اجازت ہے۔ کھیل کود، ورزش اور سیر و تفریح فطرتِ انسانی کا تقاضا اور انسانی صحت کی ضرورت ہیں، اسلام ان کی اہمیت سے انکار نہیں کرتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

فَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا.

بے شک تیرے جسم کا تجھ پر حق ہے اور یقیناً تیری جان کا بھی تجھ پر حق ہے۔

ابن حبان، الصحيح، 8: 400، رقم: 3638، بيروت، لبنان: مؤسسة الرسالة

اسوہ حسنہ میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف صحت مند سرگرمیوں کی ترغیب دی بلکہ ان میں شامل بھی ہوئے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک سفر میں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھیں تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دوڑ لگائی۔ انہوں نے اس دوڑ کا نتیجہ یوں بیان کیا ہے کہ:

فَسَابَقْتُهُ فَسَبَقْتُهُ عَلَى رِجْلَىَّ فَلَمَّا حَمَلْتُ اللَّحْمَ سَابَقْتُهُ فَسَبَقَنِى فَقَالَ هَذِهِ بِتِلْكَ السَّبْقَةِ.

میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دوڑ لگائی تو میں سبقت لے گئی۔ عرصے بعد جب میرا وزن بڑھ گیا اور ہم نے دوبارہ دوڑ لگائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ پر سبقت لے گئے اور فرمایا: یہ پہلی بار کا بدلہ ہے۔

أبو داود، السنن، أول كتاب الجهاد، باب في السبق على الرجل، 3: 29، رقم: 2578، دار الفكر

دل ودماغ اور روح کو تروتازہ رکھنے کے لیے جہاں عبادات اور ذکر و اذکار ضروری ہیں، اُن کے ساتھ سیر و تفریح، کھیل اور ورزش وغیرہ بھی ضروری ہے۔ ایک روایت میں حضرت نجیب بن سری بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

أَجِمُّوا هَذِهِ الْقُلُوبَ وَاطْلُبُوا لَهَا طَرَائِفَ الْحِكْمَةِ؛ فَإِنَّهَا تَمَلُّ كَمَا تَمَلُّ الْأَبْدَانُ.

ان دِلوں کو سکون واطمینان سے بھرا ہوا رکھو اور ان کے لیے حکمت کی تر و تازگی تلاش کرو، کہ یہ بھی جسموں کی طرح بیمار و رنجیدہ ہو جاتے ہیں۔

ابن عبد البر، جامع بيان العلم وفضله، 1: 105، بيروت، لبنان: دار الكتب العلمية

ہمہ وقت عبادت گاہ میں مشغول رہنا ممکن نہیں ہے کیونکہ حلال روزی کمانا اور دیگر امور سرانجام دینا بھی انسانی ضروریات میں شامل ہے لیکن یہ سب امور بھی جائز طریقے سے بروئے کار لانا بھی عبادت ہی میں شمار ہوتا ہے۔ بہر حال جب کسی نفلی عبادت سے اکتاہٹ محسوس ہو تو اُسے چھوڑ دینا چاہیے۔ حضرت جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اقْرَءُوا الْقُرْآنَ مَا ائْتَلَفَتْ عَلَيْهِ قُلُوبُكُمْ فَإِذَا اخْتَلَفْتُمْ فَقُومُوا عَنْهُ.

قرآن کریم اس وقت تک پڑھتے رہو جب تک تمہارے دل اس کے ساتھ لگے رہیں اور جب تم اکتاہٹ (تھکاوٹ) محسوس کرو تو اُسے پڑھنا چھوڑ دو۔

  1. بخاري، الصحيح ، كتاب فضائل القرآن، باب اقرؤوا القرآن ما ائتلفت عليه قلوبكم، 4: 1929، رقم: 4774، بيروت، لبنان: دار ابن كثير اليمامة
  2. مسلم، الصحيح، كتاب العلم، باب النهي عن أتباع متشابه القرآن والتحذير من متبعيه والنهي عن الاختلاف في القرآن، 4: 3053، رقم: 2667، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي

اس لیے کرکٹ، فٹبال، کشتی، دوڑ ہو یا کوئی دوسری صحتمند ذہنی و جسمانی ورزش اور کھیل اصلاً مباح ہے۔ مگر اس کی اباحت اس وقت جاتی رہے گی جب یہ کسی فرض کی ادئیگی میں رکاوٹ بنے یا اس پر جوا لگایا جائے۔ لہو و لعب سے بھی اصل منشاء یہی ہے کہ انسان اپنے دینی فرائض‌ و واجبات اور دنیاوی ذمہ داریوں کو بھول کر کھیل کود میں‌ ایسا مشغول ہو جائے کہ اسے موت یاد رہے اور نہ روزِ‌ حشر کے حساب کا خیال رہے۔ لیکن کوئی بھی کھیل‘ جب تک کہ اس میں کوئی غیرشرعی کام شامل نہ ہو‘ نماز، روزہ، رزقِ حلال یا دیگر فرائض میں تاخیر، سستی یا چھوٹ جانے کا سبب نہ بنے اور نہ ہی اس پر کسی قسم کا جوا لگایا گیا ہو‘ اس کا کھیلنا اور دیکھنا شرعاً جائز ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری