جواب:
نماز کی ادائیگی کی دو صورتیں ہیں: ایک انفرادی نماز ادا کرنا اور دوسری صورت باجماعت نماز کی ادائیگی ہے۔
جب میاں بیوی انفرادی یعنی الگ الگ نماز ادا کر رہے ہوں تو بیوی چاہے شوہر کے آگے نماز ادا کرے، برابر ہو یا شوہر کے پیچھے نماز ادا کرے‘ تمام صورتوں میں دونوں کی نماز بلاکراہت ادا ہو جائے گی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ:
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَأَنَا رَاقِدَةٌ مُعْتَرِضَةٌ عَلَى فِرَاشِهِ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يُوتِرَ أَيْقَظَنِي فَأَوْتَرْتُ.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے اور میں فرش پر آپ کے سامنے ترچھی سوئی رہتی۔ جب آپ وتر پڑھنے کا ارادہ فرماتے تو مجھے جگا دیتے تو میں بھی وتر پڑھ لیتی۔
بخاري، الصحيح، كتاب الصلاة، باب الصلاة خلف النائم، 1: 192، رقم: 490، بيروت،لبنان: دار ابن كثير اليمامة
حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے بھی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا:
كُنْتُ أَنَامُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرِجْلاَيَ فِي قِبْلَتِهِ، فَإِذَا سَجَدَ غَمَزَنِي، فَقَبَضْتُ رِجْلَيَّ، فَإِذَا قَامَ بَسَطْتُهُمَا، قَالَتْ: وَالبُيُوتُ يَوْمَئِذٍ لَيْسَ فِيهَا مَصَابِيحُ.
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سوئی رہتی اور میرے دونوں پاؤں آپ کے قبلے کو ہوتے۔ جب آپ سجدہ کرتے تو مجھے دبا دیتے تو میں اپنے پاؤں کو سمیٹ لیتی اور جب کھڑے ہوتے تو پھیلا لیتی۔ انہوں نے فرمایا کہ ان دنوں گھروں میں چراغ نہیں ہوا کرتے تھے۔
بخاري، الصحيح، كتاب الصلاة، باب التطوع خلف المرأة، 1: 192، رقم: 491
حضرت میمونہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَأَنَا حِذَاءَهُ، وَأَنَا حَائِضٌ، وَرُبَّمَا أَصَابَنِي ثَوْبُهُ إِذَا سَجَدَ، قَالَتْ: وَكَانَ يُصَلِّي عَلَى الخُمْرَةِ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تو میں آپ کے سامنے ہوتی اور حائضہ ہوتی اور کبھی جب آپ سجدے میں جاتے تو آپ کا کپڑا مجھ سے لگ جاتا۔ وہ فرماتی ہیں کہ آپ چھوٹی چٹائی پر نماز پڑھا کرتے۔
بخاري، الصحيح، كتاب الصلاة، باب إذا أصاب ثوب المصلي امرأته إذا سجد، 1: 149، رقم: 372
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ بیوی شوہر کے سامنے سو رہی ہو یا جاگ رہی ہو یا نماز ادا کر رہی ہو تو شوہر کی نماز ہو جاتی ہے۔ بیوی کا شوہر کے برابر یا آگے کھڑا ہونا اس وقت منع ہے کہ جب وہ شوہر کی اقتداء میں نماز ادا کر رہی ہو۔ علامہ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں:
الْمَرْأَةُ إذَا صَلَّتْ مَعَ زَوْجِهَا فِي الْبَيْتِ، إنْ كَانَ قَدَمُهَا بِحِذَاءِ قَدَمِ الزَّوْجِ لَا تَجُوزُ صَلَاتُهُمَا بِالْجَمَاعَةِ، وَإِنْ كَانَ قَدَمَاهَا خَلْفَ قَدَمِ الزَّوْجِ إلَّا أَنَّهَا طَوِيلَةٌ تَقَعُ رَأْسُ الْمَرْأَةِ فِي السُّجُودِ قِبَلَ رَأْسِ الزَّوْجِ جَازَتْ صَلَاتُهُمَا لِأَنَّ الْعِبْرَةَ لِلْقَدَمِ.
عورت جب گھر میں اپنے شوہر کے ساتھ (اس کی اقتداء میں ) نماز ادا کرے اور اس کا قدم شوہر کے قدم کے مقابل اور برابر ہے تو دونوں کی نماز درست نہیں اور اگر بیوی کے دونوں قدم شوہرکے قدم سے پیچھے ہوں تو دونوں کی نماز باجماعت درست ہے اور اگر بیوی دراز قد کی ہو جس کی وجہ سے سجدہ میں اس کا سر شوہر کے سر کے آگے ہوجائے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ یہاں قدموں کا اعتبار ہے۔
ابن عابدين، ردالمحتار، 1: 572، بيروت: دار الفكر
اس لیے بیوی صرف اس وقت شوہر کے آگے نہیں کھڑی ہوسکتی جب وہ شوہر کی اقتداء میں نماز ادا کر رہی ہو۔ جب دونوں انفرادی نماز ادا کر رہے ہوں تو بیوی کے آگے کھڑے ہونے سے نماز کی ادائیگی میں کوئی قباحت نہیں ہوتی۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔