جواب:
جب شوہر نے بقائمِ ہوش و حواس بیوی کو طلاق دی‘ خواہ بیوی کو اس کا علم ہوا یا نہ ہوا‘ طلاق واقع ہو جائے گی۔ شرعِ متین کا اصول یہ ہے کہ:
فَإِنْ كَانَ كَتَبَ: امْرَأَتُهُ طَالِقٌ فَهِيَ طَالِقٌ سَوَاءٌ بَعَثَ الْكِتَابَ إلَيْهَا، أَوْ لَمْ يَبْعَثْ.
اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو طلاق لکھی تو اُسے طلاق(واقع) ہو جائے گی، خواہ تحریر اُس کی طرف بھیجے یا نہ بھیجے برابر ہے۔
سرخسي، المبسوط، 6: 143، بيروت: دار المعرفة
اور فتاویٰ عالمگیری میں بیان کیا گیا ہے:
وَلَوْ كَتَبَ الطَّلَاقَ فِي وَسَطِ الْكِتَابِ وَكَتَبَ قَبْلَهُ وَبَعْدَهُ حَوَائِجَ ثُمَّ مَحَا الطَّلَاقَ وَبَعَثَ بِالْكِتَابِ إلَيْهَا وَقَعَ الطَّلَاقُ كَانَ الَّذِي قَبْلَ الطَّلَاقِ أَقَلَّ أَوْ أَكْثَرَ.
اگر خط کے درمیان طلاق لکھی اور اس سے پہلے یا بعد میں ضرورت کی باتیں لکھیں، پھر درمیان سے لفظ طلاق ہٹا دیا اور خط بیوی کو بھیج دیا تو طلاق ہو جائے گی خواہ طلاق سے پہلے کم لکھا یا زیادہ۔
الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوى الهندية، 1: 378، دار الفكر
لہٰذا مذکورہ شخص نے پیغام (SMS) میں جتنی طلاقیں لکھی تھیں اتنی ہی واقع ہوگئی ہیں۔ اگر شوہر نے تین طلاق تحریر کی تھیں تو تینوں واقع ہو گئی ہیں۔ اس صورت میں وہ میاں بیوی کے طور پر اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ اگر اکٹھے رہیں گے تو بےخبر ہونے کی وجہ سے بیوی گنہگار نہیں، البتہ شوہر کے کاندھوں پر دونوں کا گناہ ہوگا۔ اگر تین سے کم طلاق تحریر کی تھیں تو شوہر بیوی کو بتا کر دورانِ عدت بغیر نکاح کے اور عدت پوری ہونے پر تجدیدِ نکاح کے ساتھ رجوع کر سکتا ہے۔ دونوں صورتوں میں معاملہ بیوی کے علم میں لایا جانا ضروری ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔