جواب:
متعین وقت اور معلوم مدت کے لیے کیا جانے والا نکاح‘ نکاحِ مؤقت کہلاتا ہے۔ نکاحِ مؤقت معنیٰ و حکم کے اعتبار سے نکاحِ متعہ کی مثل ہے۔ فقہ حنفی کے مشہور امام علامہ ابنِ عابدین شامی نے نکاحِ مؤقت کے تصور اور اس کی قانونی حیثیت کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے:
وَمَعْنَاهُ الْمَشْهُورُ أَنْ يُوجَدَ عَقْدًا عَلَى امْرَأَةٍ لَا يُرَادُ بِهِ مَقَاصِدُ عَقْدِ النِّكَاحِ مِنْ الْقَرَارِ لِلْوَلَدِ وَتَرْبِيَتِهِ، بَلْ إلَى مُدَّةٍ مُعَيَّنَةٍ يَنْتَهِي الْعَقْدُ بِانْتِهَائِهَا أَوْ غَيْرِ مُعَيَّنَةٍ بِمَعْنَى بَقَاءِ الْعَقْدِ مَا دَامَ مَعَهَا إلَى أَنْ يَنْصَرِفَ عَنْهَا فَلَا عَقْدَ، فَيَدْخُلُ فِيهِ مَا بِمَادَّةِ الْمُتْعَةِ وَالنِّكَاحِ الْمُؤَقَّتِ أَيْضًا فَيَكُونُ مِنْ أَفْرَادِ الْمُتْعَةِ، وَإِنْ عَقَدَ بِلَفْظِ التَّزَوُّجِ وَأَحْضَرَ الشُّهُودَ.
عرفِ عام میں (نکاحِ مؤقت) کا معنیٰ یہ ہے کہ کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ ایسا عقدِ نکاح کرے جس میں بچے کی پیدائش اور اس کی تعلیم و تربیت وغیرہ جیسے مقاصدِ نکاح کے حصول کا ارادہ نہ کیا گیا ہو‘ بلکہ مدتِ معینہ مکمل ہونے پر عقد بھی ختم ہو جائے۔ یا ایسا نکاح جس میں مدت تو متعین نہ کی گئی ہو بلکہ یہ ارادہ کیا گیا ہو کہ عقد اس وقت تک قائم رہے گا جب تک شوہر اور بیوی اکٹھے رہیں گے‘ جب الگ ہو جائیں تو عقد ختم ہو جائے گا۔ نکاحِ متعہ، نکاحِ مؤقت اور متعین مدت کے لیے ہونے والے نکاح میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس طرح ہونے والا ہر نکاح دراصل نکاحِ متعہ ہی ہے اگرچہ اس میں زوجیت کا لفظ استعمال کیا گیا ہو اور گواہ بھی حاضر ہوں۔
ابنِ عابدین، ردالمختار، 3: 51، بیروت، دارالفکر
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا عقدِ نکاح جس میں ہمیشگی اور مقاصدِ نکاح کے حصول کا ارادہ نہ ہو‘ باطل ہے۔ مذکورہ عقد میں بھی فریقین کی نیت و ارادہ ہمیشگی و مقاصدِ نکاح کے حصول کا نہیں ہے اس لیے یہ نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوا۔ یہ لڑکا اور لڑکی‘ میاں بیوی کے طور پر اکٹھے نہیں رہ سکتے کیونکہ ان کے درمیان شرعاً عقدِ نکاح قائم ہی نہیں ہوا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔