جواب:
امامت کا حق دراصل مرد کے لیے ہے۔ لیکن اگر نماز میں صرف عورتیں ہی ہوں تو اس صورت میں عورت ان کی امامت کروا سکتی ہے، تاہم عورتوں کا مردوں کے علاوہ الگ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض فقہا مکروہ کے قائل ہیں۔ صاحبِ ہدایہ نے لکھا ہے :
ويکره للنساء أن يصلين وحدهن الجماعة. . . فإن فعلن قامت الإمامة وسطهن.
مرغينانی، الهداية، 1 : 56
’’اکیلی عورتوں کا جماعت سے نماز پڑھنا مکروہ ہے اگر انہوں نے ایسا کیا تو ان کی امام صف کے درمیان میں کھڑی ہوگی۔‘‘
احادیث مبارکہ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا اور دیگر صحابیات نماز میں امامت کراتی تھیں۔ امام حاکم نے المستدرک میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے :
أَنَّهَا كَانَتْ تُؤَذِّنُ وَتُقِيمُ وَتَؤُمُّ النِّسَاءَ وَتَقُومُ وَسْطَهُنَّ.
حاکم، المستدرک، 1 : 320، رقم : 731
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا اذان دیتی تھیں، نماز کے لئے اقامت کہتی تھیں اور صف کے درمیان میں کھڑی ہو کر عورتوں کی امامت کراتی تھیں۔‘‘
اس روایت کی رُو سے ثابت ہے کہ دینی تربیت اور عبادت الہٰی میں رغبت اور شوق پیدا کرنے کے لئے اگر عورتیں جمع ہو کر باجماعت نماز ادا کریں تو اجازت ہے۔ اس صورت میں امامت کرانے والی خاتون صف کے درمیان میں کھڑی ہوں گی۔ عیدین کے موقع پر خطبہ عید بھی پڑھے گی کیونکہ عورت کا عورتوں کے سامنے خطبہ پڑھنا درست ہے۔
فقہا کرام نے لکھا ہے کہ عورت عورتوں کی اور نابالغ نابالغوں کا امام ہو سکتا ہے۔
فتاویٰ عالمگيری، 1 : 84
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔