جواب:
کسی بھی ریاست کو اندرونی و بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنا، اس کی سرحدوں کا دفاع کرنا اور ریاست کے اندر امن و امان کا قیام عمل میں لانا ریاستی اداروں کے ذمہ ہوتا ہے۔ یہ ذمہ داری ان کو معاشرے میں طے پانے والا عمرانی معاہدہ (Constitution) سونپتا ہے۔ ریاست کا نظم و نسق چلانے، قوانین کے نفاذ اور جرم و سزا کا نظام قائم رکھنے کے لیے ان اداروں کی اہمیت سے کوئی بھی صاحبِ عقل انکار نہیں کر سکتا۔ افواج، نیم فوجی ادارے، پولیس، عدالتیں اور دیگر ریاستی ادارے معاہدہ عمرانی کے تحت ملک میں امن و امان، آئین و قانون اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ ان اداروں کے اہلکار ریاست کے باقاعدہ ملازم ہوتے ہیں اور ریاست ان کی خدمات کے عوض انہیں وظائف دیتی ہے۔ جب ان اداروں کام بڑھ جائے، مزید ملازمین کی ضرورت ہو اور وسائل میں کمی کی وجہ سے حکومت مزید باقاعدہ ملازمین کو بھرتی نہیں کر پاتی، ایسے میں حکومت رضاکار بھرتی کرتی ہے جو معمولی معاوضہ پر یا بغیر معاوضہ کے کام کرتے ہیں۔ یہ رضاکار اگرچہ باقاعدہ سرکاری ملازم نہیں ہوتے، تاہم یہ سرکاری اداروں کے ساتھ کام کرتے ہیں اور سرکاری احکام کو نافذ کرتے ہیں۔ یہ ریاستی اداروں کی سرپرستی میں رضاکار تنظیمیں قائم شرعاً و قانوناً درست ہیں۔
نظم و نسق کے ذمہ دار سرکاری اداروں اور اُن کی معاونت کے لیے کام کرنے والے رضاکاروں کے علاوہ کسی تنظیم، گروہ یا جماعت کو مسلح ہونے یا قوانین نافذ کروانے کی ذمہ داری نہیں دی جاسکتی۔ یہ تنظیمیں جرائم کی نشاندھی، مجرموں کی تلاش، فروغِ تعلیم، خیر و بھلائی یا معاشرتی فلاح و بہبود کے دیگر کاموں میں سرکاری اداروں کی مدد کر سکتی ہیں لیکن خود ہتھیار اٹھا کر قوانین کا نفاذ نہیں کروا سکتیں۔ کسی بھی مہذب سماج میں طاقت و اختیار اور مسلح ہونے کا حق فقط ریاستی اداروں کو ہے، مسلح نجی تنظیمیں خواہ حکومت کے خلاف بغاوت کے لیے بنائی گئی ہوں یا حکومت مخالف بغاوت کو کچلنے کے لیے قائم کی جائیں‘ بالآخر سماج کے لیے نقصاندہ ثابت ہوتی ہیں۔ اس لیے کوئی بھی مسلح تنظیم، اسلحہ بردار جتھّہ بنانا شرعاً عقلاً اور قانوناً درست نہ ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔