جواب:
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ.
اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
الْأَعْرَاف، 7: 204
آیتِ مبارکہ میں تلاوتِ قرآنِ مجید توجہ سے سننے کا حکم ہے تاکہ بندہ رحمتِ الٰہی کا مستحق ہوسکے۔ اگر سامع کے لیے توجہ کو لازم کیا گیا ہے تو قاری کی توجہ تو مزید ضروری ہے۔ تلاوت صرف الفاظ دہرانے کا نہیں بلکہ قرآنِ مجید میں غور کرنے کا بھی نام ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
أَفَلاَ يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًاO
تو کیا وہ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے، اور اگر یہ (قرآن) غیرِ خدا کی طرف سے (آیا) ہوتا تو یہ لوگ اس میں بہت سا اختلاف پاتے۔
النساء، 4: 82
اور دوسرے مقام پر فرمایا:
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَاO
کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں۔
مُحَمَّد، 47: 24
اس لیے تلاوتِ قرآن پورے انہماک اور توجہ سے کرنی چاہیے تاکہ انسان حکمِ باری تعالیٰ کے مطابق غور و فکر بھی کر سکے۔ اگر کوئی صرف عبادت کی خاطر بھی تلاوت کر رہا ہے تو اسے یکسوئی پیدا کرنے کا حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِO
حالانکہ انہیں فقط یہی حکم دیا گیا تھا کہ صرف اسی کے لئے اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے اﷲ کی عبادت کریں، (ہر باطل سے جدا ہو کر) حق کی طرف یک سُوئی پیدا کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیا کریں اور یہی سیدھا اور مضبوط دین ہے۔
الْبَـيِّـنَة، 98: 5
اس لیے تلاوتِ قرآنِ مجید پوری توجہ، انہماک، غور و فکر اور یکسوئی کے ساتھ کرنی چاہیے، جبکہ آپ کے کام کی نوعیت کے اعتبار سے ان تمام تقاضوں کا جمع ہونا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ آپ کام کے اوقات میں فرائضِ منصبی ادا کریں اور تلاوت کے لیے الگ وقت مختص کر لیں تاکہ آپ کا کام اور تلاوتِ قرآن دونوں پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ ہوں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔