جواب:
عربی حروف تہجی میں ’ض‘ ایک مستقل حرف ہے جو نہ دواد ہے اور نہ ذواد‘ اس کو قصداً کسی دوسرے حرف کے مشابہ پڑھنا درست نہیں۔ جو شخص ’ض‘ کی صحیح ادائیگی پر قادر ہونے باوجود اس کا تلفظ درست ادا نہیں کرتا اس کی نماز فاسد ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ’ض‘ کے مخرج بارے لکھتے ہیں:
’ض‘ کی ظاد اور دواد دونوں میں ادائیگی محض غلط ہے، اس کا مخرج نہ زبان کو دانتوں سے لگا کر ہے نہ زبان کی نوک کو داڑھ سے لگا کر، بلکہ اس کا مخرج زبان کی ایک طرف کی کروٹ اسی طرف بالائی داڑھوں سے مل کر درازی کے ساتھ ادا ہونا اور زبان کو اوپر کو اٹھا کر تالو سے ملنا اور ادا میں سختی وقوف ہونا ہے۔ اس کا مخرج سیکھنا مثل تمام حرفوں کے ضروری ہے۔ جو شخص مخرج سیکھ لے اور اپنی قدرت تک اس کا استعمال کرے اور ظ یا ذ کا قصد نہ کرے بلکہ اسی حرف کا جو اللہ عزوجل کی طرف سے اترا ہے، پھر جو کچھ نکلے بوجہ آسانی صوت پر نماز کا فتویٰ دیا جائے گا۔
احمد رضا خان، فتاویٰ رضویه، 3: 100
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’ض‘ کی ادائیگی دواد اور ذواد دونوں سے جدا ہے۔ اس کی ادائیگی عامۃ الناس کے لیے مشکل ہے، اس لیے اکثر علمائے کرام کا اس سلسلے میں مذہب یہ ہے کہ یہ عذر ہے چنانچہ معاف ہے‘ البتہ درست ادائیگی کی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ اس لفظ کی ادائیگی میں مشکل یہ پیش آتی ہے کہ:
لہٰذا اس لفظ کی ادائیگی کے لیے اہم امر مخرج ہے اگر مخرج درست ہے تو پھر ذواد یا دواد کے مشابہ پڑھنے سے کوئی فرق واقع نہیں ہوگا، لیکن اسے اپنے مخرج سے ادا نہ کیا جائے تو پھر چاہے اسے دال کی طرح پڑھ لیں یا ظا کی طرح‘ غیر صحیح ہوگا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔