باجماعت نمازِ فجر کے دوران سنتیں پڑھنے کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:488
باجماعت نمازِ فجر کے دوران سنتیں پڑھنے کا کیا حکم ہے؟

  • تاریخ اشاعت: 27 جنوری 2011ء

زمرہ: نماز فجر

جواب:

بہتر یہی ہے کہ سنتیں نمازِ فجر شروع ہونے سے قبل ادا کر لی جائیں۔ اگر بامر مجبوری کوئی نمازی باجماعت نماز سے قبل سنتیں ادا نہ کر سکے اور اسے یقین ہو کہ امام کے نماز مکمل کرنے سے پہلے وہ جماعت میں شریک ہو جائے گا تو پھر وہ سنتیں الگ جگہ پر ادا کر کے شاملِ جماعت ہو۔

امام ابو جعفر طحاوی شرح معانی الآثار میں نقل کرتے ہیں کہ صحابی حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کے متعلق منقول ہے کہ اگر نمازِ فجر باجماعت شروع ہو جاتی اور انہوں نے ابھی سنتیں ادا نہ کی ہوتیں تو وہ پہلے مسجد کے کسی گوشے میں سنتیں ادا کرتے، پھر باجماعت نماز میں شریک ہو جاتے۔ روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں :

أنه کان يدخل المسجد وَالنَّاس صفوف فِي صلٰوةِ الفجرِ، فيصلی الرکعتين في ناحية المسجد، ثُمَّ يدخل مع القوم في الصلاة.

طحاوی، شرح معانی الآثار، کتاب الصلاة، باب الرجل يدخل المسجد والإمام في صلاة الفجر، 1 : 487، رقم : 2164

’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوتے اور لوگ (باجماعت) نمازِ فجر میں صف بستہ ہوتے تو یہ پہلے مسجد کے گوشے میں دو رکعت (سنتیں) پڑھتے، پھر لوگوں کے ساتھ نماز میں شامل ہو جاتے۔‘‘

لیکن ہمارے ہاں یہ انتہائی غلط طریقہ رائج ہے۔ جیسے بعض لوگوں کا معمول ہے کہ مسجد میں فجر کی جماعت کھڑی ہوتی ہے اور وہ جماعت کی صفوں میں متصل کھڑے ہو کر سنتیں پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ایک نقصان یہ ہے کہ امام بآواز بلند قرآن حکیم کی تلاوت کر رہا ہوتا ہے جس کا سننا فرض ہے اور سنتوں میں مشغول شخص اس فرض کو ترک کر رہا ہوتا ہے۔ اس کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ بعض اوقات سنتوں میں مشغولیت کی وجہ سے فرض نماز کی جماعت چھوٹ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ احادیث مبارکہ میں جہاں فجر کی سنتیں پڑھنے کی سخت تاکید کی گئی ہے وہاں فقہاء نے یہ تنبیہ بھی کی ہے کہ نمازی کو اگر فجر کی سنتیں پڑھنے کی وجہ سے جماعت سے محروم ہونے کا خدشہ ہو تو پھر سنتیں ترک کر کے جماعت کے ساتھ شامل ہو جائے اور سورج نکلنے کے بعد استواء (وقتِ مکروہ) سے پہلے سنتوں کی قضا کرے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔