جواب:
اسلام کے عائلی نظام میں نکاح کی گرہ شوہر کے ہاتھ میں ہے۔ اگر شادی کے بعد بیوی کسی بھی وجہ سے شوہر کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو وہ شوہر کو کچھ مال دے کر بذریعہ عدالت علیحدگی کے لیے راضی کرتی ہے، یہ معاملہ خلع مبارات کہلاتا ہے۔ اگر شوہر طلاق دینے کے لیے راضی نہ ہو، بیوی کے حقوق بھی پورے نہ کرے تو اس صورت میں عدالت ان کا نکاح منسوخ (Cancel) کر دیتی ہے، یہ معاملہ تنسیخِ نکاح کہلاتا ہے۔ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ اور ان بیوی کا معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا، حضرت ثابت کی بیوی کو ان سے کوئی شکایت نہیں تھی، لیکن وہ انہیں پسند نہیں کرتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی علیحدگی کروا دی۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ:
أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَیْسٍ أَتَتِ النَّبِيَّ فَقَالَتْ یَا رَسُولَ ﷲِ ثَابِتُ بْنُ قَیْسٍ مَا أَعْتِبُ عَلَیْهِ فِي خُلُقٍ وَلَا دِینٍ وَلَکِنِّي أَکْرَهُ الْکُفْرَ فِي الْإِسْلَامِ. فَقَالَ رَسُولُ ﷲِ أَتَرُدِّینَ عَلَیْهِ حَدِیقَتَهُ. قَالَتْ نَعَمْ. قَالَ رَسُولُ ﷲِ أقْبَلْ الْحَدِیقَةَ وَطَلِّقْهَا تَطْلِیقَةً.
ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کی یارسول اللہ! میں ثابت بن قیس کے دین یا اخلاق پر کوئی اعتراض نہیں کرتی نہ عیب لگاتی ہوں، لیکن مجھے اسلام میں رہ کر کفران نعمت پسند نہیں (یعنی خاوند پسند نہیں)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس سے جو باغ تم نے حق مہر میں لیا ہے وہ اسے واپس کردوگی؟ وہ بولیں جی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (حضرت ثابت سے) فرمایا: اپنا باغ قبول کرو اور اسے ایک طلاق دے دو۔
اور یکطرفہ تنسیخ کی مثال اس حدیث مبارکہ سے ملتی ہے کہ حضرت خنساء بنتِ خِذام اَنصاریہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں روایت ہے کہ:
إِنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ ثَیِّبٌ فَکَرِهَتْ ذَلِکَ. فَأَتَتِ النَّبِيَّ فَرَدَّ نِکَاحَهَا.
ان کے والد ماجد نے ان کی کہیں شادی کر دی جبکہ وہ بیوہ تھیں، مگر اُنہیں یہ شادی ناپسند تھی۔ سو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کا نکاح منسوخ فرما دیا۔
حضرت ثابت بن قیس والی روایت خلع کی مثال ہے، جبکہ حضرت خنساء بنتِ خِذام اَنصاریہ والی روایت تنسیخِ نکاح کی مثال ہے۔ عدالت بھی جب علیحدگی کرواتی ہے تو انہی دو صورتوں میں سے کوئی صورت پیش آتی ہے۔
اپنے سوال میں آپ نے لکھا کہ ’میں نے عدالت میں خلع کا کیس دائر کیا اور فیصلہ میرے حق میں آیا‘ یہ جملہ وضاحت طلب ہے۔ خلع کا فیصلہ حق میں آنے کا مطلب ہے کہ عدالت نے آپ کے شوہر کو طلاق دینے کا حکم دیا اور بدلے میں آپ کو شوہر سے حاصل کردہ تمام یا کچھ مراعات واپس کرنے کا کہا، اس طرح شوہر نے طلاق دی اور آپ نے حق مہر یا دیگر اشیاء واپس کرنے کا وعدہ کیا۔ اس صورت میں جو اشیاء، مراعات یا رقوم آپ نے شوہر کو واپس کرنے کا وعدہ کیا تھا ان کی ادائیگی لازم ہے۔ اگر آپ وعدہ پورا نہیں کرتیں تو شوہر قانونی کاروائی کرنے کا حق رکھتا ہے۔ البتہ طلاق واقع ہو جائے گی۔
اگر آپ نے عدالت میں علیحدگی کی درخواست دائر کی تھی، اور عدالت نے آپ کا نکاح منسوخ کر دیا ہے تو آپ شوہر کو کوئی شے واپس کرنے کی پابند نہیں ہیں۔ کیونکہ اس صورت میں نہ تو آپ نے کوئی شے واپس کرنے کا وعدہ کیا ہے نہ شوہر نے طلاق دی ہے، بلکہ حضرت خنساء بنتِ خِذام اَنصاریہ رضی اللہ عنہا کی طرح عدالت نے آپ کا نکاح ختم کر دیا ہے۔ حق مہر کی جو رقم شوہر نے آپ سے ادھار لی تھی آپ اس کا مطالبہ کر سکتی ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔