جواب:
جب خریدار اور فروخت کنندہ باہمی رضامندی سے خرید و فروخت کا معاملہ طے کر لیتے ہیں تو خریدار کچھ رقم پیشگی ادا کرتا ہے جسے ’بیعانہ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل فروخت شدہ شے کی قیمت کا ہی حصہ ہوتا ہے جو فوری ادا کر دیا جاتا ہے۔ خریدار طے شدہ مدت میں کسی وجہ سے باقی قیمت ادا کرنے سے عاجز آ جائے یا فروخت کنندہ بیچنے سے انکار کر دے تو صرف بیعانہ کی رقم واپس کی جائے گی، خریدار کی طرف سے زائد کا مطالبہ کرنا یا فروخت کنندہ کا رقم دبا لینا شرعاً جائز نہیں۔ حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ نے اپنے والدِ ماجد سے روایت کی ہے کہ:
نَهَی رَسُولُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم عَنْ بَیْعِ الْعُرْبَانِ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ’بیع عربان‘ سے منع فرمایا ہے۔
’بیع عربان‘ یہی ہے کہ ایک شخص کوئی چیز خریدے اور فروخت کرنیو الے کو اس کی کچھ قیمت اس شرط پر دے کہ اگر خرید و فروخت مکمل ہوجائے تو دی گئی رقم سامان کی قیمت میں شمار کی جائے گی اور بیع مکمل نہ ہوسکے تو خریدار یہ رقم فروخت کرنے والے کے لیے چھوڑ دے گا۔ اس کی وضاحت امام مالک نے ان الفاظ میں کی ہے:
وَذَلِکَ فِیمَا نَرَی وَاﷲُ أَعْلَمُ أَنْ یَشْتَرِيَ الرَّجُلُ الْعَبْدَ أَوْ یَتَکَارَی الدَّابَّةَ ثُمَّ یَقُولُ أُعْطِیکَ دِینَارًا عَلَی أَنِّي إِنْ تَرَکْتُ السِّلْعَةَ أَوْ الْکِرَاءَ فَمَا أَعْطَیْتُکَ لَکَ.
حقیقی علم اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، مگر ہمارے خیال میں اس (بیع عربان) کا معنیٰ یہ ہے ایک آدمی مثلاً غلام خریدے یا کرائے پر جانور لے تو کہے کہ میں آپ کو ایک دینار دیتا ہوں اس شرط پر کہ اگر میں سامان نہ لوں یا کرائے پر نہ رکھوں تو جو (دینار) میں نے آپ کو دیا ہے وہ آپ کا ہو گا۔
جمہور فقہائے کرام نے اس بیع کو ممنوع و ناجائز قرار دیا ہے کیونکہ اس صورت میں بلاعوض دوسرے کے مال کا مالک بننا لازم آتا ہے۔ اس لیے زید بکر کو وہی رقم واپس کرے جو اس نے بیعانہ کی صورت میں وصول کی تھی۔ بکر کے لیے دوگنا رقم کا مطالبہ اور اس کا حصول و استعمال جائز نہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔