جواب:
آپ کے والدین نے باقی اولاد کو محروم کر کے ان کے ساتھ زیادتی کی، وہ خدا تعالیٰ کے حضور اس سلسلے میں جوابدہ ہیں۔ اسلام نے والدین کو سختی سے روکا ہے کہ وہ ساری نوازشات ایک بیٹے یا بیٹی پر نہ کریں، اگر اپنی زندگی میں کچھ وقف کر رہے ہیں تو ساری اولاد میں انصاف کریں۔ ایک صحابی نے اپنی اولاد میں سے کسی ایک بیٹے کو غلام دے دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا کہ واپس لے لو کیونکہ انہوں نے باقی بیٹوں کو نہیں دیا تھا۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ:
أَنَّ أَبَاهُ أَتَی بِهِ إِلَی رَسُولِ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم فَقَالَ إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي هَذَا غُلَامًا فَقَالَ أَکُلَّ وَلَدِکَ نَحَلْتَ مِثْلَهُ قَالَ لَا قَالَ فَارْجِعْهُ.
ان کے والد ماجد انہیں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو غلام دے دیا ہے۔ فرمایا کہ کیا تم نے اپنے ہر بیٹے کو ایسا ہی (غلام) دیا ہے؟ عرض کی کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر اس سے بھی واپس لے لو۔
ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے ایک بیٹے کو عطیہ دے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گواہ بنانا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن اﷲ تعالیٰ سے ڈرنے اور اولاد کے درمیان انصاف کرنے کا فرمایا، حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ عَامِرٍ قَالَ سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیرٍ وَهُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ یَقُولُ أَعْطَانِي أَبِي عَطِیَّةً فَقَالَتْ عَمْرَةُ بِنْتُ رَوَاحَةَ لَا أَرْضَی حَتَّی تُشْهِدَ رَسُولَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم فَأَتَی رَسُولَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم فَقَالَ إِنِّي أَعْطَیْتُ ابْنِي مِنْ عَمْرَةَ بِنْتِ رَوَاحَةَ عَطِیَّةً فَأَمَرَتْنِي أَنْ أُشْهِدَکَ یَا رَسُولَ اﷲِ قَالَ أَعْطَیْتَ سَائِرَ وَلَدِکَ مِثْلَ هَذَا قَالَ لَا قَالَ فَاتَّقُوا اﷲَ وَاعْدِلُوا بَیْنَ أَوْلَادِکُمْ قَالَ فَرَجَعَ فَرَدَّ عَطِیَّتَهُ.
حضرت عامر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے سنا کہ وہ منبر پر فرماتے تھے کہ میرے والد ماجد نے مجھے ایک عطیہ دیا تو حضرت عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گواہ نہ بناؤ۔ یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئے کہ میں نے اپنے بیٹے کو جو عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہما سے ہے ایک عطیہ دیا ہے۔ یا رسول اللہ! وہ مجھ سے کہتی ہے کہ آپ کو گواہ بناؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اپنے تمام بیٹوں کو ایسا ہی دیا ہے؟ عرض گزار ہوئے کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔ پھر وہ واپس لوٹ آئے اور اپنا عطیہ واپس لے لیا۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت حاجب بن مفضل بن مہلب رضی اللہ عنہ کے والد ماجد نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اعْدِلُوا بَیْنَ أَبْنَائِکُمْ، اعْدِلُوا بَیْنَ أَبْنَائِکُمْ، اعْدِلُوا بَیْنَ أَبْنَائِکُمْ.
اپنے بیٹوں میں انصاف کرو، اپنے بیٹوں میں انصاف کرو، اپنے بیٹوں میں انصاف کرو۔
سنن ابو داود میں الفاظ یہ ہیں:
اعْدِلُوا بَیْنَ أَوْلَادِکُمْ اعْدِلُوا بَیْنَ أَبْنَائِکُمْ.
اپنی اولاد میں انصاف کرو، اپنے بیٹوں میں انصاف کرو۔
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ والدین کو اولاد میں عدل وانصاف کرنا چاہیے نہ کہ کسی ایک کا حق تلف کر کے دوسروں کو ہبہ کر دینا چاہیے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح فرما دیا کہ اولاد میں نا انصافی نہ کرو اور اﷲ سے ڈرو تاکہ باقی اولاد اپنے حقوق سے محروم نہ ہو۔ گھر میں والد بطور سرپرست اپنی بیوی اور بچوں کا نگران ہوتا ہے، اگر والد اپنی نگرانی میں موجود افراد کے ساتھ ظلم کرے گا تو عند اﷲ جوابدہ ہو گا کہ اُس نے اپنے ماتحت افراد کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟ اگر اس نے کسی کی حق تلفی کی ہو گی تو گناہگار اور مستحقِ سزا ہو گا۔ حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ أَلَا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِیَّتِهِ فَالْإِمَامُ الَّذِي عَلَی النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِیَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَی أَهْلِ بَیْتِهِ وَهُوَ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِیَّتِهِ وَالْمَرْأَةُ رَاعِیَةٌ عَلَی أَهْلِ بَیْتِ زَوْجِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْؤُولَةٌ عَنْهُمْ وَعَبْدُ الرَّجُلِ رَاعٍ عَلَی مَالِ سَیِّدِهِ وَهُوَ مَسْؤُولٌ عَنْهُ أَلَا فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِیَّتِهِ.
حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خبردار ہو جاؤ کہ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد (رعایا) کے بارے میں پوچھا جائے گا (یعنی ہر کوئی ذمہ داری کا جوابدہ ہو گا)۔ لہٰذا امام لوگوں کی طرف سے نگران ہے اور اس سے اُن لوگوں کے بارے میں پوچھا جائے گا جو اُس کے ماتحت تھے اور ہر آدمی اپنے گھر والوں کا نگران ہے اور اُس سے اُس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد کے لیے نگران ہے اور اُس سے اُن کے بارے میں پوچھا جائے گا اور آدمی کا غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے اور اُس سے اُس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آگاہ ہو جاؤ کہ تم میں سے ہر ایک نگران ہے او رہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
(اس حدیث مبارکہ کو محدثین کی کثیر تعداد نے بیان کیا ہے)
اپنے ماتحت افراد کے حقوق میں خیانت کرنے والے شخص پر جنت حرام ہے۔ اگر والد اپنے ماتحت افراد کے حقوق میں خیانت کرے گا تو اسی حکم میں ہو گا۔
حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: عَادَ عُبَیْدُ اﷲِ ابْنُ زِیَادٍ مَعْقِلَ بْنَ یَسَارٍ الْمُزنِيَّ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِیهِ قَالَ مَعْقِلٌ: إِنِّي مُحَدِّثُکَ حَدِیثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم. لَوْ عَلِمْتُ أَنَّ لِي حَیَاةً مَا حَدَّثْتُکَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم یَقُولُ مَا مِنْ عَبْدٍ یَسْتَرْعِیهِ اﷲُ رَعِیَّةً، یَمُوتُ یَوْمَ یَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لِرَعِیَّتِهِ، إِلَّا حَرَّمَ اﷲُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ.
عبید اللہ بن زیاد حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کے مرض الموت میں ان کی عیادت کے لیے آیا تو حضرت معقل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تم کو ایک ایسی حدیث سنا رہا ہوں جس کو میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے اور اگر مجھے یہ خیال ہوتا کہ میں ابھی کچھ عرصہ اور زندہ رہوں گا تو میں تم کو یہ حدیث نہ سناتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کا حاکم بنایا ہو اور وہ اس کے حقوق میں خیانت کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کر دے گا۔
مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب وعید من اقتطع حق المسلم بیمین فاجرة بالنار، 1: 122، رقم: 137، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي
ہماری رائے میں اگر آپ والدین کے ساتھ نیکی کرنا چاہتے ہیں اور ان کو آخرت کی سختیوں سے بچانا چاہتے ہیں تو ان کا ترکہ تمام اولاد میں تقسیم کریں۔ کیونکہ جو لوگ وراثت کا مال اپنے قبضے میں رکھنے کے لئے مختلف حیلے بہانے کرتے ہیں اور دوسرے ورثاء کو وراثت سے محروم کرتے ہیں، اُن کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّاo وَّ تُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّاo
اور میراث کا مال ہپ ہپ کھاتے ہو۔ اور تم مال و دولت سے حد درجہ محبت رکھتے ہو۔
الفجر، 89: 19، 20
والدین کے ہبہ کے بعد اگرچہ قانوناً آپ کے بہن بھائی اس وراثت میں حصہ دار نہیں ہیں، تاہم درج بالا آیات و روایات اور عقل و اخلاق کی روشنی میں آپ انہیں وراثت میں شریک کریں۔ یہ آپ کی اپنے ساتھ اور اپنے والدین کے ساتھ بہت بڑی نیکی ہوگی۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔