جواب:
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ.
تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو، اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو یقیناً ان کے لئے بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔
آل عِمْرَان، 3: 110
اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کو بہترین امت کے خطاب سے نوازا ہے جس کے تین اسباب ہیں:
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ صرف نیک عمل ہے بلکہ اسی کے سبب امتِ مسلمہ کے سر فضیلت کا سہرا سجایا گیا ہے۔ فروغِ علم، اصلاح نفس اور تبلیغِ دین بلاشبہ صدقہ جاریہ ہیں مگر ان امور کو کسی بھی شرط کے ساتھ مشروط کرنا درست نہیں۔ خاص طور پر اپنے پیغامات پھیلانے کے لیے یہ کہنا کہ ’اگر ایمان ہے تو آگے پھیلاؤ‘ یا ’جو آگے نہیں بھیجے گا اس کا فلاں فلاں نقصان ہو جائے گا‘ یہ عمل سراسر ناجائز اور روحِ اسلام کے خلاف ہے۔ دعوتِ دین کا بہترین انداز قرآنِ مجید نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ.
(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو، بیشک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو (بھی) خوب جانتا ہے۔
النَّحْل، 16: 125
اس لیے نیکی پھیلانے کا احسن انداز یہی ہے کہ لوگوں تک قرآن و حدیث حکمت کے ساتھ پہنچا دی جائے اور اسے قبول یا رد کرنے یا آگے پھیلانے کا اختیار مخاطب کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے۔ یہی طریقہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ رسولوں نے اپنایا اور اسی کی ہمیں تلقین کی ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔