جواب:
قرآن مجید میں زقوم کا تین مرتبہ ذکر ہوا ہے جبکہ ایک بار اسے شجر ملعونہ کہا گیا ہے۔ مفسرین نے اس سے مراد وہ خاردار پودا لیا ہے جسے اردو میں تھوہَر یا تھوہڑ اور انگریزی میں کیکٹس (cactus) کہتے ہیں۔ یہ کانٹے دار پودا ہے جس کا ذائقہ تلخ اور بو ناگوار ہوتی ہے، توڑنے پر اس سے دودھ کی طرح کا رس نکلتا ہے جو اگر جسم کو لگ جائے تو ورم ہوجاتا ہے۔ قرآن و حدیث میں زقوم کا خاکہ اس انداز سے پیش کیا گیا ہے:
إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ. طَعَامُ الْأَثِيمِ. كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ. كَغَلْيِ الْحَمِيمِ.
بیشک کانٹے دار پھل کا درخت۔ بڑے نافرمانوں کا کھانا ہوگا۔ پگھلے ہوئے تانبے کی طرح وہ پیٹوں میں کَھولے گا۔ کھولتے ہوئے پانی کے جوش کی مانند۔
الدُّخَان، 44: 43-46
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی:
یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اﷲَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَo [آل عمران، 3: 102] قَالَ رَسُولُ ﷲِ لَوْ أَنَّ قَطْرَةً مِنْ الزَّقُّومِ قُطِرَتْ فِي دَارِ الدُّنْیَا لَأَفْسَدَتْ عَلَی أَهْلِ الدُّنْیَا مَعَایِشَهُمْ فَکَیْفَ بِمَنْ یَکُونُ طَعَامَهُ.
{اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہاری موت صرف اسی حال پر آئے کہ تم مسلمان ہو} [آل عمران، 3: 102] رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر زقوم کا ایک قطرہ بھی دنیا میں گر پڑے تو دنیا والوں کے لئے ان کی زندگی برباد کردے تو ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جن کا یہی کھانا ہے۔
جبکہ اسٹرابیری (Strawberry) جسے عربی میں فراولۃ کہتے ہیں ایک خوشنما اور خوش ذائقہ پھل ہے جو دنیا کے ہر خطے میں کھایا جاتا ہے۔ اسٹرابیری کو زقوم قرار دینا شریعت، لغت اور عرف کے لحاظ سے غلط ہے۔ اسٹرابیری کا کھانا بلا کراہت جائز ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔