اگر امام کی قرات غلط ہے تو مقتدی کے لیے کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:480
اگر امام کی قرات غلط ہے تو مقتدی کے لیے کیا حکم ہے؟

  • تاریخ اشاعت: 27 جنوری 2011ء

زمرہ: نماز  |  عبادات  |  شرائط امامت

جواب:

اگر امام کی قرات درست نہ ہو اور مقتدی امام سے بہتر قرات کر سکتا ہو تو مقتدی کے لیے حکم ہے کہ وہ جماعت کی امامت کرائے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

إِذَا کَانُوْا ثَلَاثَةً فَلْيَؤُمَّهُمْ اَحَدُهُمْ. وَأَحَقُّهُمْ بِالإِمَامَةِ اَقْرَؤُهُمْ.

مسلم، الصحيح، کتاب المساجد و مواضع الصلاة، باب من أحق بالإمامة؟، 1 : 464، رقم : 672

’’جب تین نمازی ہوں تو ان میں سے ایک امامت کرے، اور ان میں امام بننے کا سب سے زیادہ مستحق وہ شخص ہے جسے قرآن کا سب سے زیادہ علم ہو۔‘‘

اگر مقتدیوں میں سے کسی کی بھی قرات اتنی صحیح نہ ہو تو بلاتکلف ان میں سے کسی کو امام بنا لیا جائے اور اس کی اقتداء میں نماز ادا کی جائے۔ ترک جماعت کسی طور جائز نہیں کیونکہ نماز باجماعت کی اتنی تاکید ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

اَلصَّلَاةُ الْمَکْتُوْبَةُ وَاجِبَةٌ خَلْفَ کُلِّ مُسْلِمٍ بَرَّا کَانَ أَوْ فَاجِرًا اَوْ إِنْ عَمِلَ الْکَبَائِرَ.

ابو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب امامة البر و الفاجر، 1 : 233، رقم : 594

’’تم پر فرض نماز لازمی ہے ہر مسلمان کے پیچھے، نیک ہو یا بد، خواہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہو۔‘‘

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔