السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ! محترم المقام مفتی عبد القیوم خان ہزاروی صاحب آج کل {الدنیا مزرعۃ الآخرۃ} کے بارے میں بحث چھڑی ہوئی ہے کہ یہ حدیث ہے یا کسی کا قول ہے؟ مہربانی فرما کر اس کی فنی تحقیق سے آگاہ فرمائیں۔
جواب:
مذکورہ بالا قول کو حدیث کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ یہ قول بطور حدیث لوگوں کے ہاں مشہور ہے اور اس کو جابجا بطور حوالہ پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ قول حدیث یا فن حدیث کی کسی بھی مستند کتاب میں موجود نہیں ہے۔ چند تفاسیر اور اخلاق و تصوف کی کتب میں یہ مقولہ درج کیا گیا ہے، ان میں اگر اسے بطور حدیث بھی ذکر کیا گیا ہے تو اس کی کسی سند یا حوالے کا ذکر نہیں کیا گیا۔ جبکہ اجل آئمہ نے اسے موضوع (گھڑا ہوا) قرار دیا ہے۔
امام سخاوی نے المقاصد الحسنۃ میں اسے بیان کرنے کے بعد کہا ہے:
لم أقف علیه، مع إیراد الغزالي له في الإحیاء.
اگرچہ امام غزالی نے اسے احیاء علوم الدین میں بیان کیا ہے، لیکن میں اس پر بطور حدیث توقف نہیں کر سکتا۔
(السخاوي، مقاصد الحسنة، 1: 351)
امام سخاوی کے اس قول کو بنیاد بناتے ہوئے امام ملا علی القاری نے الأسرار المرفوعۃ في الأخبار الموضوعۃ، صفحہ 82 پر اسے بطور موضوع روایت نقل کیا ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ معنًا یہ روایت درست ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
مَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَةِ نَزِدْ لَهٗ فِیْ حَرْثِهٖ.
جو شخص آخرت کی کھیتی چاہتا ہے ہم اُس کے لیے اُس کی کھیتی میں مزید اضافہ فرما دیتے ہیں۔
(الشوریٰ، 42: 20)
ملا علی قاری نے امام سخاوی کا یہی قول اپنی کتاب المصنوع صفحہ 101 پر بھی بیان کیا ہے۔
امام ابو الفضل العراقی نے بھی المغني عن حمل الأسفار، 2: 992، میں اسے بیان کرنے کے بعد کہا ہے کہ مجھے ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت مرفوعا نہیں ملی۔
امام صغانی نے اپنی کتاب الموضوعات، صفحہ 64 پر اسے موضوع روایت کے طور پر بیان کیا ہے۔
امام ابو الفضل مقدسی نے بھی اپنی کتاب تذکرۃ الموضوعات، صفحہ 64 پر اسے موضوع روایت کے طور پر بیان کیا ہے۔
امام زرقانی نے بھی مختصر مقاصد الحسنۃ میں اس حدیث کے بارے میں کہا ہے کہ لا أعرفہ۔
اس حدیث کے بارے میں محدثین نے جو عدم واقفیت یا لاعلمی کا اظہار کیا ہے، اس حوالے سے اُصول الحدیث کا قاعدہ ہے کہ جب کوئی اجل محدث کسی حدیث کے بارے میں کہے: لا أعرفہ، یا لم أقف علیہ، یا لم أجد لہ أصلا اور کوئی دوسرا محدث اس قول کی تردید نہ کرے تو یہ الفاظ اس حدیث کے موضوع اور من گھڑت ہونے کی دلیل ہے۔ اس قاعدے کا ذکر امام سیوطی نے ان الفاظ میں کیا ہے:
إذا قال الحافظ المطلع الناقد في حدیث لا أعرفه اعتمد ذلک في.
جب کوئی مستند محقق، رواۃ حدیث سے واقف حافظِ حدیث کسی حدیث کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کرے تو یہ اُس حدیث کی نفی کی دلیل ہے۔
سیوطي، تدریب الراوي، 1: 296
اس حدیث کے بارے میں امام سخاوی اور امام زرقانی جیسے عظیم محدثین نے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ لہٰذا اس حدیث کے موضوع ہونے میں کوئی کلام نہیں۔
المختصر! یہ روایت کسی بھی مستند حدیث کی کتاب میں بیان نہیں ہوئی، بلکہ اسے تصوف کی کتب میں بغیر کسی سند کے بیان کیا گیا ہے۔
اکثر آئمہ حدیث نے اسے موضوع قرار دیا ہے، بعض نے اسے معناً درست کہا ہے۔ لہٰذا احتیاط کا تقاضہ ہے کہ اسے بطور قولِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرنے کی بجائے کسی مشہور قول کہہ کر بیان کیا جائے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔