جواب:
عقل انسان کا سب سے بڑا شرف ہے، اپنی اسی صلاحیت کی بنیاد پر وہ دین کا مخاطب قرار پاتا ہے۔ یہ دین کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ نابالغ بچے پر، سوئے ہوئے پر اور مجنون کی حالت (پاگل شخص) میں دین کے احکام لاگو نہیں ہوتے۔ قرآن کریم میں مریض کے بارے میں ہے:
ولَاعَلَی الْمَرِیْضِ حَرَجٌ.
اور نہ بیمار پر کوئی گناہ ہے۔
النور، 24: 61
اس آیت مبارکہ کی تفسیر کرام کی رائے ہے کہ:
فَالْحَرَجُ مَرْفُوعٌ عَنْهُمْ فِي هَذَا.
جو مریض لوگ ہیں، مرض کی حالت میں ان سے حرج یعنی احکامِ سزا و جزا اٹھالیے گئے ہیں۔
علامہ قرطبی مزید بیان کرتے ہیں:
فَبَیَّنَتْ هَذِهِ الْآیَةُ: أَنَّهُ لَاحَرَجَ عَلَی الْمَعْذُورِیْنَ.
اس آیت مبارکہ نے واضح کر دیا کہ معذور لوگوں پر کوئی گرفت نہیں ہے۔
قرطبي، جامع لأحکام القرآن، 8: 226
دوسری آیت کریمہ میں ہے:
وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍط
اور اس (اﷲ تعالیٰ) نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔
الحج، 22: 78
امام ابو بکر احمد بن علی الرازی الجصّاص الحنفی اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضی الله عنہما: مِنْ ضِیقٍ وَکَذَلِکَ قَالَ مُجَاهِدٌ: وَیُحْتَجُّ بِهِ فِي کُلِّ مَا اُخْتُلِفَ فِیهِ مِنْ الْحَوَادِثِ أَنَّ مَا أَدَّی إلَی الضِیقِ فَهُوَ مَنْفِيٌّ وَمَا أَوْجَبَ التَّوْسِعَةَ فَهُوَ أَوْلَی وَقَدْ قِیلَ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِي الدِّینِ مِنْ حَرَجٍ أَنَّهُ مِنْ ضِیقٍ لَا مَخْرَجَ مِنْهُ.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: حرج کا مطلب ہے تنگی۔ اور اسی طرح (ان کے شاگرد) حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اس آیت کریمہ سے مختلف حوادث و واقعات میں یہ دلیل پکڑی جاسکتی ہے کہ جو حکم تنگی پیدا کرے اس کا وجود نہیں اور جو فراخی وآسانی پیداکرے وہی بہترہے۔ آیت کریمہ کا مطلب ہے کہ دین میں کوئی ایسی تنگی نہیں جس سے چھٹکارے کا راستہ نہ ہو۔
جصّاص، أحکام القرآن، 5: 90، بیروت: دار إحیاء التراث العربي
امام قاضی بیضاوی فرماتے ہیں:
ضِیقٌ بِتَکْلِیْفِ مَایَشْتَدُّ الْقِیَامُ بِهِ عَلَیْکُمْ.
تنگی، ایسی تکلیف کا حکم ہے جس پر قائم رہنا تم پر سخت (مشکل) ہو۔
دیگر مفسرین نے بھی اس آیت مبارکہ میں حرج کا معنی تنگی ہی کیا ہے۔ چند حوالہ جات درج ذیل ہیں:
حدیث مبارکہ میں بھی حرج کا معنی تنگی ہی بیان کیا گیا ہے:
عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا سَأَلَتِ النَّبِيَّ عَنْ هَذِهِ الْآیَةِ {وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍط} [الحج، 22: 78] قَالَ: الضِّیقُ.
(هَذَا حَدِیثٌ صَحِیحُ الْإسْنَادِ وَلَمْ یُخْرِجَاهُ)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیت مبارکہ {وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍط} کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: الضیق (تنگی)۔
امام حاکم فرماتے ہیں:
(اس حدیث مبارکہ کی اسناد صحیح ہیں لیکن اس کو بخاری ومسلم نے روایت نہیں کیا)
حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 2: 424، رقم: 3477، بیروت: دار الکتب العلمیة
ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی ثابت ہے کہ بچہ سمجھدار ہونے تک، سونے والا بیدار ہونے تک اور مجنوں عقلمند ہونے تک شریعت کے مکلف نہیں ہوتے:
عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنِ النَّائِمِ حَتَّی یَسْتَیْقِظَ وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّی یَحْتَلِمَ وَعَنِ الْمَجْنُونِ حَتَّی یَعْقِلَ.
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تین قسم کے لوگوں پر قانون لاگو نہیں ہوتا سونے والا جب تک بیدار نہ ہو جائے۔ بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے اور مجنوں جب تک عقلمند نہ ہو جائے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنِ النَّائِمِ حَتَّی یَسْتَیْقِظَ وَعَنِ الْمُبْتَلَی حَتَّی یَبْرَأَ وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّی یَکْبُرَ.
تین آدمیوں سے قلم اٹھا لیا جاتا ہے۔ ایک سوئے ہوئے سے جب تک بیدار نہ ہوجائے۔ دوسرے دیوانے سے جب تک دیوانگی نہ جائے۔ تیسرے بچے سے جب تک بالغ نہ ہوجائے۔
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ کو چند الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ محدثین کی کثیر تعداد نے بیان کیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے حالتِ جنون میں انسان مرفوع القلم ہوتا ہے۔ آپ کی والدہ آپ کے لیے بالکل اسی طرح قابلِ احترام ہے جس طرح وہ بیماری سے پہلے تھیں۔ ان کی بیمارپرسی کریں، حسنِ سلوک سے پیش آئیں۔ ان کو مار پیٹ کرنا قطعاً جائز نہیں۔ حوصلے اور صبر سے حالات کا سامنا کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اجرِ عظیم دے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔