جواب:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آقا علیہ السلام سے سوال کیا کہ:
یَا رَسُوْلَ اﷲِ! مَتٰی وَجَبَتْ لَکَ النُّبُوَّةُ؟ قَالَ: وَآدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ.
یا رسول اللہ! آپ کے لیے نبوت کب واجب ہوئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (میں اُس وقت بھی نبی تھا) جب آدم علیہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی (یعنی روح اور جسم کاباہمی تعلق بھی ابھی قائم نہ ہوا تھا)۔
اور علامہ احمد بن محمد قسطلانی رحمہ اللہ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر لکھی گئی اپنی کتاب المواہب اللدنیہ میں نقل کرتے ہیں:
وروى عبد الرزاق بسنده عن جابر بن عبد الله الأنصارى قال: قلت: يا رسول اﷲ! بأبی أنت و أمی! أخبرنی عن أوّل شئ خلقه اﷲ تعالی قبل الأشياء، قال: يا جابر! إن اﷲ تعالی قد خلق قبل الأشياء نور نبيک من نوره، فجعل ذلک النور يدور بالقدرة حيث شاء اﷲ تعالی، ولم يکن فی ذلک الوقت لوح ولا قلم، ولا جنة ولا نار، ولا ملک، ولا سماء ولا أرض، ولا شمس ولا قمر، ولا جني ولا انسي، فلما أراد اﷲ تعالی أن يخلق الخلق، قسم ذالک النور أربعة أجزاء: فخلق من الجزء الأوّل القلم، و من الثانی اللوح، ومن الثالث العرش، ثم قسم الجزء الرابع أربعة أجزاء، فخلق من الأوّل حملة العرش، و من الثانی الکرسی، و من الثالث باقی الملائکة، ثم قسم الجزء الرابع أربعة أجزاء، فخلق من الأوّل السموت، ومن الثانی الأرضين، و من الثالث الجنة والنار…
ابو بکر عبد الرزاق رحمہ اللہ نے اپنی سند سے حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا: میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے بتائیں کہ اللہ تعالی نے سب سے پہلے کیا چیز پیدا فرمائی؟ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے جابر! بیشک اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے (نہ بایں معنی کہ نور الٰہی اس کا مادہ تھا بلکہ اس نے نور کے فیض سے) پیدا فرمایا، پھر وہ نور مشیتِ ایزدی کے مطابق جہاں چاہتا سیر کرتا رہا۔ اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم، نہ جنت تھی نہ دوزخ، نہ فرشتہ تھا، نہ آسمان تھا نہ زمین، نہ سورج تھا نہ چاند، نہ جن تھا اور نہ انسان۔ جب اللہ تعالی نے ارادہ فرمایا کہ مخلوقات کو پیدا کرے تو اس نور کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا: پہلے حصے سے قلم بنایا، دوسرے سے لوح اور تیسرے سے عرش۔ پھر چوتھے حصے کو چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے حصے سے عرش اٹھانے والے فرشتے بنائے اور دوسرے سے کرسی اور تیسرے سے باقی فرشتے۔ پھر چوتھے کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے سے آسمان بنائے، دوسرے سے زمین اور تیسرے سے جنت اور دوزخ۔۔۔۔
قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1: 71، بيروت: المكتب الاسلامي
ان روایات سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نورِ محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے پہلے تخلیق کیا۔ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نورِ نبوت کی تخلیق سب سے پہلے ہوئی مگر آپ کا جسمانی ظہور اور بعثت و اعلانِ نبوت تمام انبیاء کے اخیر میں ہوا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سر پر ختمِ نبوت کا تاج سجایا ہے آپ کے ذریعے شریعتِ خداوندی کا کامل و مکمل صورت میں اظہار ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تخلیق میں اول اور بعثت میں انبیاء میں سے آخری ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
كُنْتُ أَوَّلَ النَّبِيِّينَ فِي الْخَلْقِ وَآخِرَهُمْ فِي الْبَعْثِ.
میں سب نبیوں سے پہلے پیداہوا اور سب سے آخر میں بھیجا گیا۔
اسی مفہوم کی ایک روایت حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرسلا روایت ہے۔ حضرت ابو قلابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إِنَّمَا بعثت فاتحاً وخاتماً.
میں دریائے رحمت کھولتے اور سلسلہ نبوت و رسالت کو ختم کرتے ہوئے مبعوث ہوا۔
عبد الرزاق، المصنف، 6: 112، 113، رقم: 10163- 11: 111، رقم: 20062، بيروت: المكتب الاسلامي
اس لیے زید کا یہ کہنا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تخلیق میں اول ہیں تو آخری نہیں ہوسکتے‘ درست نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تخلیق میں اولین ہونا بعثت کے آخری ہونے میں مانع نہیں ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔