جواب:
نمازِ فجر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر رُخِ انور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین کی طرف کر کے ان سے مخاطب ہوتے اور انہیں وعظ و نصیحت فرماتے۔ حضرت سمرہ بن جُندب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
كَانَ النَّبِيُّ إِذَا صَلَّى صَلاَةً أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز پڑھ لیتے تو رخ انور کو ہماری طرف فرما لیا کرتے تھے۔
بخاري، الصحيح، كتاب صفة الصلاة، باب يستقبل الإمام الناس إذا سلم، 1: 290، رقم: 809، بيروت، لبنان: دار ابن كثير اليمامة
اور حضرت عریاض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَاةَ الصُّبْحِ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں نماز صبح پڑھائی اور اس کے بعد ہماری طرف متوجہ ہو کر ایک موثر و عمدہ نصیحت فرمائی۔
ابن ماجه، السنن، باب اتباع سنة الخلفاء الراشدين المهديين، 1: 17، رقم: 44، بيروت: دار الفكر
اس لیے نماز کے بعد وعظ و نصیحت اور درس و تدریس کے لیے مقتدیوں کی طرف متوجہ ہونا بھی جائز ہے۔ اسی طرح جمعہ کے روز سنتوں کی ادائیگی کے دوران امام کا منبر پر بیٹھنا بھی ممنوع نہیں ہے۔ فقہائے کرام نے کراہت کا حکم انفرادی طور پر نمازی کی طرف چہرہ کر کے اس انداز سے بیٹھنے پر لگایا ہے جس سے نمازی کا خشوع و خضوع متاثر ہو یا نمازی کے سامنے بیٹھ کر باتیں کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے، اجتماعی امور کی ادائیگی میں کراہت کا یہ حکم جاری نہیں ہوگا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔