کیا امانت لوٹاتے ہوئے وہی نوٹ‌ واپس کرنا لازم ہے جو جمع کیے گئے تھے؟


سوال نمبر:4782
السلام علیکم! مجھے کسی سلسلے سے دوسرے شہر جانے کا ارادا بنا تو میرے ایک دوست نے مجھے (فرض کیا 100روپے) دیے کہ اُس شہر میں اس کے کچھ غریب رشتہ دار رہتے ہیں ان کو بطور صدقہ یہ رقم دے دوں۔ میں نے وہ رقم اپنے بٹوے میں ڈال لی، یوں وہ رقم میرے اپنے پیسوں میں شامل ہو گئی۔ راستہ میں معمول کی چیزیں خریدیں جس سے غالب گمان ہے کہ ان 100 روپوں میں سے بھی کچھ خرچ ہو گیا۔ منزل مقصود پر پہنچ کے میں نے بٹوے سے کوئی سے بھی 100 روپے نکالے اور اس شخص کو دے دیے جس کے بارے میں‌ کہا گیا تھا۔ واپسی پر میں نے دوست کو بتا دیا تو دوست نے کہا‌ "یار وہی پیسے دینے تھے جو میں نے تمہیں دیے تھے"۔ دوست کی اس بات سے میں شش و پنج میں پڑ گیا ہوں کہ کہیں صدقہ کی رقم میں نے خود تو استعمال نہیں کر لی؟ کیا مجھے دوست کے رشتہ داروں کو مزید صدقہ دے دینا چاہیے؟ کیونکہ میری دانست میں پیسہ کسی بھی شکل میں ہو وہی قدر رکھتا ہے۔ جبکہ کوئی اور جنس مثلا دو بکریوں کی قیمت، صحت، وزن وغیرہ میں تو فرق آ سکتا ہے مگر روپے پیسے کی قدر وہی کی وہی رہتی ہے۔ چاہے 100 کا ایک نوٹ ہو، 10 کے دس، یا پھر 5 کے بیس سکے۔ براہ کرم رہنمائی فرما دیں۔

  • سائل: تنویر علیمقام: فیصل آباد، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 10 اپریل 2018ء

زمرہ: ودیعت (امانت)

جواب:

نوٹ تبدیل ہونے کی صورت میں ان کی مالیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا، اس لیے اسے امانت میں خیانت شمار کیا جا سکتا ہے نہ اس سے صدقہ میں کوئی اثر آتا ہے۔ آپ کے ذمے صدقہ پہنچانا تھا جو پہنچ گیا۔ اگر صدقہ دینے والا پیشگی یہ شرط عائد کر دیتا کہ یہی نوٹ فلاں شخص تک پہنچانا ہے تو پھر امانت کا تقاضا یہی تھا کہ وہی نوٹ حقدار تک پہنچایا جاتا، جبکہ یہاں ایسا نہیں ہوا۔ لہٰذا آپ پر کچھ لازم نہیں ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی