کسی شخص میں موجود برائی کے بارے میں‌ دوسروں‌ کا آگاہ کرنا کیسا ہے؟


سوال نمبر:4778

السلام علیکم مفتی صاحب! میرے درج ذیل تین سوالات ہیں:

  1. بعض اوقات عرفان القران پڑھتے وقت مزید تفصیل یا تفسیر کی ضرورت پڑتی ہے، کس کتاب سے استفادہ کیا جائے؟ کیا قادری صاحب نے کوئی تفسیر لکھی ہے جو آن لائن دستیاب ہو؟
  2. جب ہم کسی دوست یا رشتہ دار کو کسی دوست یا رشتہ دار کے شر سے بچنے کے لیے اسکی برایوں یا خامیوں سے متعلق بتاتے ہیں تو اس کا کیا حکم ہے؟
  3. پہلی طلاق کے بعد اگر عدت کا ٹائم ختم ہو جائے تو بغیر نکاح کیے مزید طلاقیں دینے سے دوسری طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟

  • سائل: زوہیب حسنمقام: فیصل آباد
  • تاریخ اشاعت: 30 مارچ 2018ء

زمرہ: رذائلِ اخلاق

جواب:

آپ کے سوالات جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

  1. آپ تفصیل کے لیے تفسیر ضیاء القرآن، تفسیر تبیان القرآن اور تفسیر نعیمی ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری تفسیر قرآن لکھ رہے ہیں، عنقریب مکمل ہو کر آن لائن مطالعہ کے لیے دستیاب ہوگی۔
  2. اگر کسی شخص میں واقعی کوئی برائی موجود ہے جس سے دوسرے لوگوں کو بھی نقصان ہو رہا ہے تو بہتر یہ ہے کہ اولاً اسی شخص کو اس خامی کی طرف توجہ دلائیں۔ اگر توجہ دلانے کے باوجود وہ اپنی غلطی پر قائم رہتا ہے تو اس کے شر سے بچانے کی نیت سے دوسروں کا آگاہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ مگر اس میں ذاتی عناد، بغض یا دشمنی نہیں ہونی چاہیے۔
  3. قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ.

طلاق (صرف) دو بار (تک) ہے، پھر یا تو (بیوی کو) اچھے طریقے سے (زوجیت میں) روک لینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔

البقرة‘ 2: 229

اس فرمان سے واضح ہوتا ہے کہ صریح الفاظ میں ایک یا دو مرتبہ دی گئی طلاق کے بعد دورانِ عدت بغیر تجدیدِ نکاح کے رجوع ہو سکتا ہے کیونکہ عدت کی مدت ختم ہونے تک نکاح قائم رہتا ہے۔ اس دوران دی گئی مزید طلاقیں بھی واقع ہو جاتی ہیں۔ عدت کی مدت مکمل ہونے پر نکاح ختم ہو جاتا ہے، اس کے بعد دی گئی مزید کوئی بھی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری