جواب:
ہمارا معاشرہ دیگر مسائل کے ساتھ شادی کے معاملے میں بھی افراط و تفریط کا شکار ہے۔ معاشرے کا ایک طبقہ اولاد کو اتنا بےمہار چھوڑ دیتا ہے کہ وہ شرعی، معاشرتی اور اخلاقی حدود سے بھی بے پرواہ ہو جاتے ہیں، دوسری طرف اس کے بالکل برعکس ایک طبقہ ایسا ہے جو اولاد کو پسند و ناپسند کا وہ حق بھی چھین لیتا ہے جو ان کو ان کے خالق نے دیا ہے۔ گھر کے بڑے فیصلہ کرتے ہیں اور بڑوں کا فیصلہ اولاد کے پاؤں کی زنجیر بن جاتا ہے، اس فیصلے پر عمل کرنا لازمی ہوتا ہے چاہے اس کے نتائج کچھ بھی آئیں۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ.
اپنی پسند کی عورتوں سے نکاح کرو۔
النساء، 4: 3
یہ پسند دو طرفہ ہو گی، لڑکے کی طرف سے بھی اور لڑکی کی طرف سے بھی، کسی پر اس کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ ٹھونسا نہیں جا سکتا۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ایک اور مقام پر شادی کا مقصد بیان فرمایا:
وَمِنْ اٰیٰـتِهٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْهَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةًط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَo
اور یہ (بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی، بے شک اس (نظامِ تخلیق) میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔
الروم، 30: 21
مذکورہ بالا آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ شادی کے لیے لڑکے اور لڑکی کا ایک دوسرے کو پسند کرنا ضروری ہے تاکہ اُن کے درمیان محبت ورحمت پیدا ہو پھر ہی وہ ایک دوسرے سے سکون پا سکتے ہیں مگر جب لڑکے لڑکی کے درمیان بیان کردہ چیزیں نہیں پائی جائیں گی تو اُن کی زندگی عذاب بن کر رہ جائے گی۔ لہٰذا یہ اچھا ہوا کہ لڑکے نے شادی سے پہلے ہی اظہار کر دیا ہے کیونکہ یہی نتیجہ شادی کے بعد نکلتا تو لڑکی کے لیے اس سے بھی کہیں زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ہو سکتا تھا۔
اگر منگنی کے وقت لڑکا لڑکی عاقل وبالغ تھے اور دونوں کی رضامندی سے یہ رشتہ طے ہوا تھا تو اب لڑکے کا انکار کرنا غلط بات ہے، اس کے برعکس اگر اُن دونوں کی رضامندی کے بغیر رشتہ طے کیا تھا تو پھر اس کے ذمہ دار رشتہ طے کرنے والے ہیں۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود قطع تعلق کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، اگر ایک فرد کا گناہ ہے تو باقی لوگوں کا قصور ہے؟ بے شک زیادہ آنا جانا کم کر دیں لیکن خوشی غمی میں شریک ہونا بند نہ کریں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَاﷲِ مِنْم بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ وَیَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اﷲُ بِهٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَیُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِط اُولٰٓئِکَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَo
(یہ نافرمان وہ لوگ ہیں) جو اللہ کے عہد کو اس سے پختہ کرنے کے بعد توڑتے ہیں، اور اس (تعلق) کو کاٹتے ہیں جس کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور زمین میں فساد بپا کرتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔
البقرة، 2: 27
اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعٌ.
رشتہ داری توڑنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا۔
ایک اور حدیث جس میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیثِ وَلَا تَحَسَّسُوا وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا تَنَافَسُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَکُونُوا عِبَادَ اﷲِ إِخْوَانًا.
بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو، حرص نہ کرو، حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو اور اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن جاؤ۔
مسلم، الصحیح، 4: 1986، رقم: 3652
اس لیے اگر ان لوگوں نے آپ کے ساتھ زیادتی کی ہے تو اس کا ان سے مواخذہ ہوگا۔ آپ اپنے عمل کے جوابدہ ہیں اور آپ وہی رویہ اختیار کرنا چاہیے جس کا اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے، شائد اسی ادا کو دیکھ کر پروردگار ہم پر نظرِ کرم فرما دے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔