سوال نمبر:4759
السلام علیکم! کیا فرماتے ہے مفتیان کرام کہ ایک بندہ کسی کاروبار میں رقم لگاتا ہے اس کا کاروبار کے لین دین میں ایک مخصوص منافع باہمی دونوں پارٹی کے طے شدہ فیصد پے ہوتا ہے۔ مطلوبہ صورت میں کاروبار میں رقم لگانے والا شخص منافع میں شریک ہوتا ہے جو کہ رضامندی سے طے شدہ ہوتا ہے۔ جتنی رقم اس کا مثلاً 10 فیصد ملتا ہے۔ باقی کسی بھی لین دین کے معاملات اور نقصان اس کا ذمہ دار نہ ہوگا۔ مطلوبہ خالص رقم جو کہ کاروبار میں لگائی ہے وہ وہی رہے گی۔ جب کاروبار ختم کرنا چاہے رقم پوری واپس ملے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ کاروباری طریقہ کار جائز ہے یا نہیں؟ اس میں سودی کا عنصر شامل ہے؟
- سائل: ساجد علیمقام: کراچی
- تاریخ اشاعت: 31 مارچ 2018ء
جواب:
مشترکہ کاروبار کی جائز صورت یہ ہے کہ منافع کی شرح طے کر لی جائے کہ کس شریک کو
منافع میں سے کتنے فیصد ملے گا۔ اسی طرح تمام شرکاء نقصان میں بھی شریک ہوں گے۔ اگر
سرمایہ کار کوئی خاص رقم طے کر لیتا ہے کہ کاروبار میں نفع ہو یا نقصان اسے خاص رقم
ملتی رہے گی تو یہ جائز نہیں۔ اسی طرح اگر وہ صرف نفع میں شریک ہو اور نقصان کی صورت
میں بھی اسے اپنی پوری رقم لینے کا حق ہو تو یہ بھی جائز نہیں ہے۔
اس لیے اگر مذکورہ کاروبار بھی جائز صورت کے مطابق ہے تو اس میں شریک ہونے میں کوئی
حرج نہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔