جواب:
مذکوہ شخص کو چاہیے کہ لوگوں کی پرواہ کیے بغیر استقامت کے ساتھ نیکی کے راستے پر گامزن رہے۔ اعمال کا صلہ لوگوں سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے ملنا ہے۔ لوگ اُس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں یہ اہمیت نہیں رکھتا۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ کس نیت سے نیک اعمال کر رہا ہے؟ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الدُّنْیَا نُؤْتِهٖ مِنْهَاج وَمَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَةِ نُؤْتِهٖ مِنْهَاط
اور جو شخص دنیا کا انعام چاہتا ہے ہم اسے اس میں سے دے دیتے ہیں، اور جو آخرت کا انعام چاہتا ہے ہم اُسے اس میں سے دے دیتے ہیں۔
آل عمران، 3: 145
اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ.
بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
اس لیے لوگوں کی پرواہ کیے بغیر خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں اجر پانے کے لیے اعمالِ صالحہ جاری رکھیں۔
روزے کے روحانی فوائد لاتعداد ہیں، اس کے ساتھ یہ انسانی جسم میں شہوت کو کم کرتا ہے۔ اس لیے جو شخص شہوت پر قابو پانا چاہتا ہے روزہ اس کے لیے بہترین عمل ہے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ نے فرمایا:
مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَائَةَ فَلْیَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ.
جو عورت کا مہر ادا کر سکتا ہو وہ نکاح کر لے کیونکہ یہ نظر کو جھکاتا ہے اور شرمگاہ کے لیے اچھا ہے اور جو ایسا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ روزے رکھے کیونکہ یہ شہوت کو گھٹاتا ہے۔
اور ہر ماہ تین روزے رکھنے کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
صَوْمُ ثَـلَاثَةٍ مِنْ کُلِّ شَهْرٍ وَرَمَضَانَ إِلَی رَمَضَانَ صَوْمُ الدَّهْرِ.
ہر ماہ کے تین دن کے روزے رکھنا اور ایک رمضان کے بعد دوسرے رمضان کے روزے رکھنا یہ تمام عمر کے روزوں کے مترادف ہے۔
مسلم، الصحیح، 2: 819، رقم: 1162
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اﷲِ الْمُحَرَّمُ وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِیضَةِ صَلَاةُ اللَّیْلِ.
رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے۔
مسلم، الصحیح، 2: 821، رقم: 1163
ہر نفلی عبادت کی اپنی تاثیر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر شخص کو اس کے حالات اور استطاعت کے مطابق نفلی عبادات کا حکم دیا۔ کسی کو جنگ میں شمولیت کی بجائے والدین کی خدمت کا حکم فرمایا، کسی کے لیے صفائی نصف ایمان قرار دیا اور کسی کو نکاح نصف ایمان بتایا۔ ہر ایک کے مرض کے مطابق دو تجویز کی گئی۔ اس لیے ان میں سے کوئی عبادت کمتر نہیں ہے۔
ہر قمری مہینے کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو روزے رکھنا مسنون ہے۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
صَوْمُ ثَلَاثَةٍ مِنْ کُلِّ شَهْرٍ، وَرَمَضَانَ إِلَی رَمَضَانَ صَوْمُ الدَّهْرِ.
’’ہر ماہ تین دن کے روزے رکھنا اور ایک رمضان کے بعد دوسرے رمضان کے روزے رکھنا یہ تمام عمر کے روزوں کے مترادف ہے۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب استحباب صيام ثلاثة أيام من کل شهر، 2: 819، رقم: 1162
اور تہجد کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ اس شخص پر رحم کرتا ہے جو آدھی رات کو اٹھتا ہے اور تہجد کی نماز پڑھتا ہے اور اپنی بیوی کو بھی جگاتا ہے اور وہ بھی نماز پڑھتی ہے اور اگر وہ انکار کرے تو وہ اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے (پیار سے ) پھینکتا ہے اور اللہ اس عورت پر بھی نظر کرم فرماتا ہے جو رات کو اٹھ کر تہجد پڑھتی ہے اور اپنے خاوند کو بھی تہجد کے لیے جگاتی ہے اور اگر وہ انکار کرے تو وہ عورت (پیار سے ) اپنے خاوند کے منہ پر پانی کے چھینٹے پھینکتی ہے۔‘‘ (ابو داؤد، نسائی)
اس لیے نفلی عبادات جو ممکن ہوں ضرور کرنی چاہیے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔