جواب:
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مومن وہ لوگ ہیں جو:
الَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ. إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ. فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ.
جو (دائماً) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بیشک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں۔ پھر جو شخص ان کے سوا کسی اور کا خواہش مند ہوا تو ایسے لوگ ہی حد سے تجاوز کرنے والے (سرکش) ہیں۔
الْمُؤْمِنُوْن، 23: 5-7
قرآنِ مجید کی اس آیت کی روشنی میں علماء کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ بیوی اور لونڈی کے علاوہ مباشرت اور جنسی خواہش کی تکمیل کے تمام طریقے حرام ہیں۔ کسی شخص کے لئے جائز قربت کی صرف دو صورتیں ہیں: ایک نکاح اور دوسری شرعی باندی (ملکِ یمین)۔ لونڈی اور غلام وہ لوگ تھے جو جنگ سے گرفتار ہوتے یا وہ لوگ تھے جن کو صدیوں سے معاشرے کے غالب طبقے نے نان و نفقہ کے بدلے غلام بنا رکھا تھا۔ ان کی باقاعدہ تجارت ہوتی تھی اور منڈی میں قیمت لگتی تھی۔ اس غلامی کی قانونی پوزیشن یہ تھی کہ لونڈی اور غلام دنیا میں کسی چیز کے مالک نہ تھے۔ جب سے انہوں نے ہوش سنبھالا اپنا بکنا، بکانا دیکھا۔ نہ کوئی گھر، نہ وطن، نہ ان کی سوچ، نہ رائے، نہ ارادہ و اختیار، اس غلامی کو اسلام نے مختلف صورتوں سے کفارات و صدقات کی شکل میں ختم کیا اور کسی آزاد کو غلام بنانا گناہِ کبیرہ قرار دیا۔ گویا آئندہ کے لئے غلامی کا مستقل طور پر قلع قمع کر دیا۔دورِ جدید میں انسانیت غلامی کی ممانعت پر متفق ہے اور دنیا سے غلامی کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ فقہائے اسلام کا بھی اجماع ہے کہ آج کے دور میں کسی انسان کو غلام یا لونڈی نہیں بنایا جاسکتا کیونکہ یہ بین الاقوامی قوانین، عرف اور تعامل کے خلاف ہیں۔ اسلام کے ابتدائی دور میں جن حالات اور اسباب کی بنا پر غلام اور لونڈی بنانے کی اجازت دی گئی تھی وہ حالات و اسباب اب مفقود ہیں۔ ویسے بھی کسی آزاد عورت کو لونڈی نہیں بنایا جاسکتا۔ اس لیے مباشرت صرف اسی عورت سے جائز ہے جو آپ کی منکوحہ ہو۔ آپ نکاح کی کوشش کرتے رہیں‘ اللہ تعالیٰ آپ کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّى يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ.
اور ایسے لوگوں کو پاک دامنی اختیار کرنا چاہئے جو نکاح (کی استطاعت) نہیں پاتے یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی فرما دے۔
النُّوْر، 24: 33
اور رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
عَنْ عَبْدِ ﷲِ فَقَالَ کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ فَقَالَ مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَائَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّه اَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَاَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْه بِالصَّوْمِ فَإِنَّه لَه وِجَاءٌ.
’’عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ نے فرمایا: جو عورت کا مہر ادا کرسکتا ہو وہ نکاح کر لے کیونکہ یہ نظر کو جھکاتا ہے اور شرمگاہ کے لیے اچھا ہے اور جو ایسا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ روزے رکھے کیونکہ یہ شہوت کو گھٹاتا ہے۔‘‘
درج بالا احکام سے واضح ہے کہ بیویوں کے علاوہ کسی اور طریقے سے شہوت پوری کرنا جائز نہیں۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گناہ میں مبتلا ہونے کا خوف دور کرنے کے لیے دوسرا قابلِ عمل طریقہ بتا دیا ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔