کیا طلاق کا وسوسہ آنے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے؟


سوال نمبر:4713
السلام علیکم! میں ایک وسواس والا انسان ہوں، نئی نئی شادی ھوئی ہے تو طلاق کے وساوس کثرت سے آتے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ میں بہت پریشان ہوں۔ ایک دن صبح کے وقت میں بیدار ہوا تو دل میں خیال آیا کہ ’اگر فوراً اٹھ گیا تو بیوی کو طلاق‘ یہ ایک وسوسہ تھا۔ اس کے بعد بیوی کمرے میں آئی اور مجھے اٹھایا تو میں نے اسے کہا کہ پانچ منٹ تک اٹھتا ہوں، لیکن میں اسی وقت اٹھ کر کمرے سے باھر چلاگیا۔ راہنمائی فرمائیں کہ میں نے جو بیوی کو الفاظ کہے تھے وہ پہلے وسوسے سے بچنے کے لیے کیے تھے‘ کیا اس خیال سے طلاق واقع ھوگئی؟ الفاظ بولے کہ پانچ منٹ بعد اٹھتا ہوں لیکن اٹھ فوراً گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ طلاق سے سخت نفرت کرتا ھوں اور دل میں ارادہ بھی نھیں تھا۔

  • سائل: عمران علیمقام: خانیوال، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 26 فروری 2018ء

زمرہ: طلاق

جواب:

عقل و نقل اس بات پر متفق ہیں کہ کسی شخص کا مؤاخذہ اس کے خیالات پر نہیں‘ بلکہ عمل پر ہونا چاہیے۔ یہی اصول طلاق کے بارے میں بھی ہے۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اگر دل میں طلاق کا خیال آیا یا دل میں طلاق دینے کا ارادہ کیا (اور زبان سے کچھ نہ کہا) تو طلاق نہیں ہوئی۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:

إِنَّ اﷲَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَکَلَّمْ.

اﷲتعالیٰ نے میری اُمت کے اُن خیالات کو معاف فرمادیا ہے جو دلوں میں پیدا ہوتے ہیں جب تک ان کے مطابق عمل یا کلام نہ کریں۔

بخاري، الصحیح، كتاب الطلاق، باب إذا قال لامرأته وهو مكره هذه أختي فلا شيء عليه، 5: 2020، رقم: 4968، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة

اس لیے جب تک زبان سے بول کر یا لکھ کر طلاق نہ دی جائے یا لکھے ہوئے طلاق نامہ کی شوہر تصدیق نہ کرے تب تک طلاق واقع نہیں ہوتی۔ محض طلاق کے خیالات آنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔

مذکورہ واقعہ سے طلاق نہیں ہوئی، لیکن آپ آئندہ ایسے وساوس سے خود کو بچائیں۔ جب بھی ایسا وسوسہ آئے تو تعوذ پڑھیں۔ اس بارے میں بار بار نہ سوچیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری