کیا عورت نمازِ جنازہ میں شریک ہو سکتی ہے؟


سوال نمبر:4711
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! عرض یہ ہے کہ کیا کوئی عورت مردوں کے ساتھ نماز جنازہ میں شریک ہو سکتی ہے؟ یعنی عورتیں اور مرد اکھٹے نماز جنازہ پڑھ سکتے ہیں؟ اگر پڑھ سکتے ہیں تو اس کی کیا صورت ہو گی؟ جواب عنایت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔ جزاك اللہ

  • سائل: سرفراز احمدمقام: بھمبر، آزاد کشمیر
  • تاریخ اشاعت: 27 فروری 2018ء

زمرہ: نماز جنازہ

جواب:

عورت جنازے کو کندھا نہیں دے سکتی اور نہ ہی جنازے کے ساتھ چل سکتی ہے، لیکن نماز جنازہ ادا کر سکتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:

نُهِینَا عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ وَلَمْ یُعْزَمْ عَلَیْنَا.

ہمیں (عورتوں کو) جنازوں کے ساتھ چلنے سے منع کیا گیا‘ مگر تاکید سے منع نہیں ہوا۔

  1. بخاري، الصحیح، 1: 429، رقم: 1219، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة
  2. مسلم، الصحیح، 2: 646، رقم: 938، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي

مراد یہ ہے کہ عورت جنازے کو کندہ دے یا جنازے کے ساتھ چلے تو مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہو گا جس کی اسلام میں اجازت نہیں ہے، لہٰذا عورتیں باپردہ ہو کر الگ سے جناز گاہ پہنچ جائیں تو وہاں اُن کے لیے نماز جنازہ میں شریک ہونے کا باپردہ الگ تھلگ انتظام ہو تو وہ نماز جنازہ ادا کر سکتی ہیں کیونکہ حدیث مبارکہ سے ثبوت ملتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نمازِ جنازہ ادا کی تھی جیسا کہ حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:

ادْخُلُوا بِهِ الْمَسْجِدَ حَتَّی أُصَلِّيَ عَلَیْهِ.

ان کی میت کو مسجد میں لاؤ تاکہ میں اس پر نماز جنازہ پڑھوں۔

مسلم، الصحیح، 2: 669، رقم: 973، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نمازِ جنازہ باقی مسلمانوں کی طرح دعائے مغفرت کی صورت میں نہیں ہوئی تھی بلکہ تمام مرد وخواتین اور بچوں نے باری باری گروہوں کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درودو سلام بھیجا تھا یعنی عورتیں بھی شامل تھیں۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:

لَمَّا صُلِّیَ عَلَی رَسُولِ ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم أُدْخِلَ الرِّجَالُ فَصَلَّوْا عَلَیْهِ بِغَیْرِ إِمَامٍ أَرْسَالاً حَتَّی فَرَغُوا، ثُمَّ أُدْخِلَ النِّسَاءُ فَصَلَّیْنَ عَلَیْهِ، ثُمَّ أُدْخِلَ الصِّبْیَانُ فَصَلَّوْا عَلَیْهِ، ثُمَّ أُدْخِلَ الْعَبِیدُ فَصَلَّوْا عَلَیْهِ أَرْسَالاً لَمْ یَؤُمَّهُمْ عَلَی رَسُولِ ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم أَحَدٌ.

جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال فرما گئے تو مردوں کو داخل کیا تو انہوں نے بغیر امام کے اکیلے اکیلے صلاۃ و سلام پڑھا پھر عورتوں کو داخل کیا گیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلاۃ و سلام پڑھا پھر بچوں کو داخل کیا گیا تو انہوں نے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلاۃ و سلام پڑھا۔ پھر غلاموں کو داخل کیا گیا تو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلاۃ پڑھا اکیلے اکیلے کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر امامت نہ کروائی۔

  1. بیهقي، السنن الکبری، 30: 30، رقم: 6698، مکۃ المکرمة: مکتبة دار الباز
  2. ابن کثیر، البدایة والنہایة، 3: 232، بیروت، لبنان: مکتبة المعارف
  3. سیوطی، الخصائص الکبری، 2: 483، بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیة

اگر مرد موجود نہ ہوں تو عورتوں کا نمازِ جنازہ ادا کرنا بھی جائز ہے:

وَاعْلَمْ أَنَّ جَمَاعَتَهُنَّ لَا تُکْرَهُ فِي صَلَاةِ الْجِنَازَةِ لِأَنَّهَا فَرِیضَةٌ.

جان لو کہ نماز جنازہ میں عورتوں کی جماعت مکروہ نہیں کیونکہ یہ نماز فرض ہے۔

ابن همام، فتح القدیر، 1: 352، بیروت: دار الفکر

اگر عورت اکیلی نماز جنازہ پڑھ لے تو فرض ساقط ہوجاتا ہے۔ بہار شریعت میں ہے:

اگر عورت نے نماز جنازہ پڑھائی اور مردوں نے اس کی اقتدا کی تو لوٹائی نہ جائے کہ اگرچہ مردوں کی اقتدا صحیح نہ ہوئی مگر عورت کی نماز تو ہوگئی، وہی کافی ہے۔

امجد علی اعظمي، بهار شریعت، 4: 175، باب مدینه، کراتشی: مکتبة المدینه

درج بالا تمام اقتباسات سے واضح ہوتا ہے کہ عورتیں نمازِ جنازہ میں شریک ہو سکتی ہیں‘ لیکن اُن کی صفیں مردوں سے الگ بنائی جائیں گی اور عورتوں مردوں کے اختلاط کو روکا جائے گا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری