جواب:
حضرت خطیب بغدادی اور ابنِ جماعہ نے امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ سے صحابی کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے:
کُلُّ مَنْ صَحِبَهُ سَنَةً أَوْ شَهْرًا أَوْ یَوْمًا أَوْ سَاعَةً أَوْ رَآهُ، فَهُوَ مِنْ أَصْحَابِهِ، لَهُ مِنَ الصُّحْبَةُ عَلَی قَدْرِ مَا صَحِبَهُ.
ہر وہ شخص جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو‘ ایک سال یا ایک مہینہ یا ایک دن یا ایک گھڑی یا اُس نے (فقط حالتِ ایمان میں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہو وہ صحابی ہے۔ اسے اسی قدر شرفِ صحابیت حاصل ہے جس قدر اس نے صحبت اختیار کی۔
امام بخاری رحمہ اﷲ صحابی کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں:
وَمَنْ صَحِبَ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم أَوْ رَآهُ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَهُوَ مِنْ أَصْحَابِهِ.
مسلمانوں میں سے جس نے بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا فقط آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہو، وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحابی ہے۔
بخاري، الصحیح، کتاب المناقب، باب فضائل أصحاب النبی صلی الله علیه وآله وسلم ، 3: 1335، دار ابن کثیر الیمامة، بیروت
حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اﷲ نے صحابی کی درج ذیل تعریف کی ہے جو بہت جامع ومانع اور اہل علم کے ہاں مقبول اور راجح ہے:
وَهُوَ مَنْ لَقِيَ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم مُؤمِناً بِهِ، وَمَاتَ عَلَی الْإِسْلَامِ، وَلَوْ تَخَلَّتْ رِدَّةٌ فِي الْأَصَحَّ.
صحابی وہ ہے جس نے حالتِ ایمان میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کی ہو اور وہ اسلام پر ہی فوت ہوا ہو اگرچہ درمیان میں مرتد ہو گیا تھا (مگر وفات سے پہلے مسلمان ہو گیا)۔
ابن حجر مذکورہ تعریف کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
وَالْمُرَادُ بِاللِّقَاءِ: مَا هُوَ أَعمُّ: مِنَ الْمُجَالَسَةِ، وَالْمُمَاشَاةِ، وَ وَصُولِ أَحَدِهِمَا إِلَی الآخَرِ، وَإِنْ لَمْ یُکَالِمْهُ، وَیَدْخُلُ فِیهِ رُؤیَةُ أَحَدِهِمَا الآخَرَ، سَوَاءٌ کَانَ ذَلِکَ بِنَفْسِهِ أَو بِغَیْرِهِ.
لقاء سے مراد (ایسی ملاقات) ہے جو باہم بیٹھنے، چلنے پھرنے اور دونوں میں سے ایک کے دوسرے تک پہنچنے اگرچہ اس سے مکالمہ بھی نہ کیا ہو، یہ مجلس اس لحاظ سے عام ہے (جس میں صرف کسی مسلمان کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچنا ہی کافی ہے) اور لقاء میں ہی ایک دوسرے کو بنفسہ یا بغیرہ دیکھنا داخل ہے۔
عسقلاني، نزهَة النظر بشرح نخبة الفکر: 64، قاہرة ، مصر: مکتبة التراث الاسلامي
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا جس نے حالت ایمان میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور اس کا خاتمہ بالایمان ہوا تو وہ صحابی کہلاتا ہے۔
قلائد الجواہر فی مناقب عبدالقادر کے مطابق حضرت غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کی ولادت 470 یا 471 ہجری میں ہوئی ہے، آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ظاہری حیاتِ طیبہ میں نہیں دیکھا اس لیے آپ رضی اللہ عنہ صحابی کی تعریف پر پورا نہیں اترتے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد کسی بھی شخص کو حالتِ منام یا بیداری کی حالت میں آپ کے جسمِ حقیقی کی زیارت نہیں ہوئی۔ جس کو بھی خواب یا بیداری میں زیارت ہوئی ہے اس نے آپ کا جسمِ مثالی دیکھا ہے، جسمِ حقیقی نہیں۔ اس لیے صحابیت کا شرف صرف ان خوش نصیبوں کو ہی حاصل ہے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں آپ کی زیارت اور آپ سے ملاقات کی ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔