کیا والدین کے علاوہ کوئی دوسرا رشتہ دار عقیقہ کر سکتا ہے؟


سوال نمبر:4680
السلام علیکم مفتی صاحب! عقیقہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا نانا کی کمائی سے عقیقہ کرنا درست ہے؟

  • سائل: غلام محمدمقام: ہندوستان
  • تاریخ اشاعت: 15 فروری 2018ء

زمرہ: احکام و مسائلِ عقیقہ

جواب:

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

کُلُّ غُلاَمٍ رَهِیْنَةٌ بِعَقِیْقَةِ، تُذْبَحُ عَنْهُ یَوْمَ سَابِعِهِ وَیُحْلَقُ وَ یُسَمَّی.

’’ہر بچہ اپنے عقیقہ کے ساتھ گروی ہے، ساتویں دن اس کی طرف سے ( عقیقہ) ذبح کیا جائے، اُس کا سر منڈایا جائے اور اس کا نام رکھا جائے۔‘‘

بخاری، الصحیح: 5472

جمہور علمائے کرام کے نزدیک عقیقہ کرنا سنت ہے۔ امام ابن قدامہ فرماتے ہیں:

وَالْعَقِیْقَةُ سُنَّةٌ فِي قَوْلِ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْهُمْ ابْنُ عَبَّاسٍ وَابْنُ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ وَفُقَهَاءِ التَّابِعِیْنَ وَأَئِمَّةِ أَهْلِ الْأَمْصَارِ.

’اکثر اہل علم جیسے ابن عباس، ابن عمر، حضرت عائشہ، فقہائے تابعین اور آئمہ کے مطابق عقیقہ سنت ہے۔‘

المغنی مع الشرح الکبیر، 11: 120

عقیقہ کے سنت ہونےکی دلیل سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی یہ روایت ہے کہ:

مَنْ وُلِدَ لَهُ وَلَدٌ فَأَحَبَّ أَنْ یَنْسُكَ عَنْهُ فَلْیَنْسُكَ.

’جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کی طرف سے نسیکہ (جانور ذبح ) کرنا چاہے تو نسیکہ کرے۔‘

سنن ابو داؤد، 28442

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:

من ولد له ولد فاحب ان ينسک عنه فلينسک عن الغلام شاتين و عن الجاريه شاه.

’’جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اور اس کی طرف سے ذبح کرنا چاہے تو لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرے۔‘‘

ابوداؤد، السنن، 3: 107، رقم: 2842، دارالفکر

اس لیے احناف کے نزدیک عقیقہ کرنا سنت ہے۔ اگر والدین استطاعت رکھتے ہیں تو ساتویں دن عقیقہ کریں گے۔ قرض لیکر یا کسی کی حق تلفی کر کے عقیقہ کرنا درست نہیں ہے۔ سات دنوں کے اندر چاہے والدین کی طرف سے ہو یا کسی اور رشتہ دار کی طرف سے عقیقہ ہو جائے گا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری