کیا طلاق کے بارے میں سوچنے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے؟


سوال نمبر:4674
میری اپنی بیگم سے تلخ کلامی ہوئی۔ وہ اپنے ماں باپ کے گھر رہنے کے لئے جانا چاہ رہی تھی۔ میں نے اسے غصے سے کہا کہ شام کو میرے دفتر سے آنے سے پہلے چلی جانا اور ساتھ ہی دل میں سوچا کہ اگر یہ میرے آنے پر موجود ہوئی تو ہمارا رشتہ ختم ہوا۔ مگر بیگم سے اسکا کہا نہیں۔ میرے واپس آنے پر وہ جانے کے لئے تیار تھی مگر ابھی گئی نہیں تھی۔ کیا اسطرح ہمارا رشتہ ختم تو نہیں ہوگیا؟

  • سائل: صہیب شہزادمقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 27 جنوری 2018ء

زمرہ: طلاق

جواب:

عقل و نقل اس بات پر متفق ہیں کہ کسی شخص کا مؤاخذہ اس کے خیالات پر نہیں ہوتا‘ بلکہ اس کے عمل پر ہوتا ہے۔ یہی اصول طلاق کے بارے میں بھی ہے۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اگر دل میں طلاق کا خیال آیا یا دل میں طلاق دینے کا ارادہ کیا (اور زبان سے کچھ نہ کہا) تو طلاق نہیں ہوئی۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:

إِنَّ اﷲَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَکَلَّمْ.

اﷲتعالیٰ نے میری اُمت کے اُن خیالات کو معاف فرمادیا ہے جو دلوں میں پیدا ہوتے ہیں جب تک ان کے مطابق عمل یاکلام نہ کریں۔

بخاري، الصحیح، 5: 2020، رقم: 4968، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة

اس لیے محض طلاق کا خیال آنے یا دل میں ارادہ کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ اس طرح کے وسوسوں سے بچنا چاہیے، ایسے خیالات مقدس رشتوں کو کمزور کرتے ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری