جواب:
اسلام کے جنگی قوانین کے مطابق غیر جانب دار اور غیر محارب (Non-Combatant) افراد یا ممالک کے ساتھ جنگ نہیں کی جائے گی، خواہ ان کے ساتھ نظریاتی اختلاف کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔ اسلام نے ایسے غیر جانب دار لوگوں کے ساتھ پرامن رہنے کا حکم دیا ہے کیونکہ اسلام خواہ مخواہ جنگ یا تصادم کو پسند نہیں کرتا۔ وہ ہر انسانی جان کا احترام کرتا ہے اور انسانی خون کی حرمت کی پاسداری کا ہر سطح پر پورا پورا اہتمام کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ياَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَﷲِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِز وَلاَ يَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰی اَلاَّ تَعْدِلُوْاط اِعْدِلُوْاقف هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰيز وَاتَّقُوا اﷲَط اِنَّ اﷲَ خَبِيْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَo
المائدة، 5: 8
’’اے ایمان والو! اﷲ کے لیے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے، اور اﷲ سے ڈرا کرو! بے شک اﷲ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہے۔‘‘
اس آیت میں کسی قوم کی دشمنی (hostility) کے باوجود اس کے ساتھ طرز عمل میں ظلم کرنے یا حد سے تجاوز کرنے کی ممانعت ہے۔ امام قرطبی نے ابو عبیدہ اور فراء کے حوالے سے اس کا معنی بیان کیا ہے :
معنی ﴿لاَ يَجْرِمَنَّکُمْ﴾ أی لا يکسبنکم بغض قوم أن تعتدوا الحق إلی الباطل، والعدل إلی الظلم.
قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 6: 45
’’لاَ يَجْرِمَنَّکُمْ کا معنی یہ ہے کہ کسی قوم کا بغض و عداوت تم سے یہ کام نہ کروا سکے کہ تم حق سے باطل اور عدل سے ظلم کی طرف تجاوز کرو۔‘‘
اسی طرح بلا امتیاز قتل عام کی ممانعت کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
لَا يَنْهٰکُمُ اﷲُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِيَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْا اِلَيْهِمْ ط اِنَّ اﷲَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَo
الممتحنة، 60: 8
’’اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بے شک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔‘‘
اسلام انسانی خون کو کعبۃ اﷲ کی حرمت سے زیادہ فضیلت کا سزاوار سمجھتا ہے، دورانِ جنگ بھی خون ناحق کی مذمت کی گئی ہے۔ دورانِ جنگ صرف انہی دشمنوں کو قتل کرنے کی اجازت ہے جو عملًا جنگ میں شریک ہوں جبکہ آبادی کا غیر محارب حصہ جس میں بیمار، معذور، گوشہ نشین افراد، بچے، بوڑھے اور عورتیں شامل ہیں۔ قتال کی اجازت سے مستثنیٰ ہے۔ فتحِ مکہ کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو ہدایات جاری فرمائیں ان میں مذکور ہے کہ جو مقابلہ نہ کرے، جان بچا کر بھاگ جائے، اپنا دروازہ بند کرلے یا زخمی ہو اس پر حملہ نہ کیا جائے۔
امام مسلم حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ، وَمَنْ أَلْقَی السِّلَاحَ فَهُوَ آمِنٌ، وَمَنْ أَغْلَقَ بَابَهُ فَهُوَ آمِنٌ.
1. مسلم، الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب فتح مکة، 3 : 1407،
رقم : 1780
2. أبو داؤد، السنن، کتاب الخراج والإمارة والفيء، باب ما جاء في خبر مکة، 3 : 162،
رقم : 3021
’’جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا اُسے امان ہے، جو شخص ہتھیار پھینک دے اُسے امان ہے اور جو شخص اپنے گھر کے دروازے بند کر لے اُسے بھی امان ہے۔‘‘
ان تمام اقدامات سے امن کا عزم اور پیغام ظاہر ہوتا ہے۔
مصنف عبد الرزاق میں روایت ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
لَا يُذَفَّفُ عَلَی جَرِيْح، وَلَا يُقْتَلُ أَسِيْرٌ، وَلَا يُتْبَعُ مُدْبِرٌ.
عبد الرزاق، المصنف، 10 : 123، رقم : 18590
’’زخمی کو فوراً قتل نہ کیاجائے، نہ قیدی کو قتل کیا جائے اور نہ بھاگنے والے کا تعاقب کیا جائے۔‘‘
مصنف عبد الرزاق کی ایک اور روایت میں حضرت جویبر بیان کرتے ہیں کہ انہیں بنو اسد کی ایک عورت نے بتایا کہ اُس نے حضرت عمار کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جنگ جمل سے فارع ہونے کے بعد یہ اعلان کرتے ہوئے سنا:
ولا تذففوا علی جريح، ولا تدخلوا دارا، من ألقی السلاح فهو آمن، ومن أغلق بابه فهو آمن.
عبد الرزاق، المصنف، 10 : 124، رقم : 18591
’’زخمی کو فوراً قتل نہ کرنا اور کسی گھر میں داخل نہ ہونا، جس نے اپنا اسلحہ پھینک دیا اُسے امان ہے اور جس نے اپنا دروازہ بند کر لیا وہ بھی مامون ہے۔‘‘
درج بالا تصریحات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب اسلام پر جنگ مسلط کر دی جائے یا مسلمانوں کو جارحیت کا نشانہ بنایا جائے اور جواب میں اسلامی ریاست کی فوج باقاعدہ جہاد میں مصروف ہو تو ایسے حالات میں بھی دشمن کے غیر حربی شہریوں کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔ یہی نہیں بلکہ دوران جنگ فصلوں کو تباہ کرنے، عمارتوں کو مسمار کرنے، عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے اور لوٹ مار سے بھی منع کیا گیا ہے۔ جو اسلام دوران جہاد بھی ان امور کی اجازت نہیں دیتا اس کے نزدیک ایسے مسلمانوں یا غیرمسلموں کو جو براہ راست جارحیت میں ملوث نہ ہوں‘ پُر امن طریقے سے اپنے گھروں اور شہروں میں مقیم ہوں‘ کاروبار میں مصروف ہوں‘ سفر کر رہے ہوں یا مساجد میں مصروفِ عبادت ہوں۔ اس لیے ایسی کارروائیاں اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی اور قرآن و حدیث سے صریح انحراف ہیں۔ ایسی کاروائیاں کرنے والے گمراہ ہیں اور فعلِ حرام کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:
دہشت گردی اور فتنہ خوارج (اردو)، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا مبسوط تاریخی فتویٰ
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔