جواب:
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْاْ بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ.
اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو جب وہ شرعی دستور کے مطابق باہم رضامند ہو جائیں تو انہیں اپنے (پرانے یا نئے) شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو۔
البقرہ، 2: 232
اور سورہ طلاق میں فرمایا:
فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ.
پھر جب وہ اپنی مقررہ میعاد (کے ختم ہونے) کے قریب پہنچ جائیں تو انہیں بھلائی کے ساتھ (اپنی زوجیت میں) روک لو یا انہیں بھلائی کے ساتھ جدا کردو۔
الطَّلاَق، 65: 2
مذکورہ آیات سے واضح ہوتا ہے کہ طلاق رجعی (ایک یا دو صریح طلاق) کی عدت ختم ہونے تک نکاح قائم رہتا ہے۔ اس دوران شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے لیے اجنبی نہیں ہوتے اس لیے بغیر نئے نکاح کے رجوع کر سکتے ہیں۔ عدت مکمل ہونے پر نکاح ختم ہو جاتا ہے اور عورت اس نکاح سے نکل جاتی ہے۔ اسی طرح طلاق بائن (کنایہ کے الفاظ سے طلاق) اور طلاقِ مغلظہ (تین طلاق) سے نکاح فوراً ختم ہو جاتا ہے اور عورت سابقہ شوہر کے لیے اجنبی اور غیر محرم ہو جاتی ہے جس سے پردہ کرنا لازم ہوتا ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔