جواب:
اختلافات اپنی جگہ، مگر گیارہ سال بعد مردانگی نہ ہونے کا اعتراض لگا کر بچوں کا مستقبل داؤ پر لگانا درست نہیں۔ کیا ان بچوں کی یہ حقیقت سامنے آنے کے بعد معاشرہ ان کو قبول کرے گا؟ کیا وہ خود سر اٹھا کر جی سکیں گے؟ اُن معصوموں کو اس جرم کی سزا کیوں دی جائے جس کا انہوں نے ارتکاب ہی نہیں کیا۔
طلاق کی عدت پوری کرنے کے بعد عالیہ اپنے پسندیدہ کزن سے نکاح کر لے، لیکن بچے زید کے ہیں اور اسی کے پاس رہیں گے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ عتبہ بن ابو وقاص نے سعد بن ابو وقاص سے وعدہ لیا کہ زمعہ کی لونڈی کا بیٹا میرا ہے اس پر قبضہ کر لینا۔ فتح مکہ کے سال سعد بن ابو وقاص نے اسے پکڑ لیا اور کہا: یہ میرا بھتیجا ہے اور اس کے متعلق مجھ سے عہد لیا گیا ہے۔ عبداﷲ بن زمعہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ میرا بھائی ہے کیونکہ میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے اور ان کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے۔ سعد عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ! میرا بھتیجا ہے اور اس کے متعلق مجھ سے عہد لیا گیا ہے۔ عبد بن زمعہ نے کہا کہ میرا بھائی ہے کیونکہ میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے اور اُن کے بستر پر ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے عبد بن زمعہ! یہ تمہارا ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ.
بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر ہو اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔
ایک اور روایت میں ہے:
عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اﷲِ قَالَ الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ.
حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر ہو اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔
اس لیے بچے زید کی طرف منسوب کیے جائیں گے، وہی ان کا باپ ہے اور ان کی پرورش بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔