جواب:
تعلیمِ قرآن کو حق مہر شمار کرنا ایک اختلافی مسئلہ ہے، آئمہ احناف اسے حق مہر قرار دینے کے خلاف ہیں جبکہ آئمہ ثلاثہ کے ہاں تعلیمِ قرآن کو حق مہر شمار کرنا بالاتفاق جائز ہے۔ اس اجمال کی تفصیل میں جانے سے قبل ان حکمتوں کو جان لینا چاہیے جن کے پیشِ نظر شرعِ متین نے حق مہر کو واجب قرار دیا ہے۔
مہر کی رسم اسلام سے پہلے مختلف صورتوں میں رائج تھی، اسلام نے اس میں اصلاحات کرتے ہوئے اس شائستہ رسم کو برقرار رکھا۔ عقدِ نکاح میں حق مہر کی ادائیگی عورت کی عظمت و اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ اس میں عورت کی معاشی کفالت کا حصہ بھی ہے اور اس سے رشتہ ازدواج کی پائیداری اور استحکام بھی پیشِ نظر ہے۔ حق مہر کی حکمتوں اور مصلحتوں کو بیان کرتے ہوئے بدائع الصنائع میں شمس العلماء علامہ علاء الدین کاسانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
فَلَوْ لَمْ يَجِبْ الْمَهْرُ بِنَفْسِ الْعَقْدِ لَا يُبَالِي الزَّوْجُ عَنْ إزَالَةِ هَذَا الْمِلْكِ بِأَدْنَى خُشُونَةٍ تَحْدُثُ بَيْنَهُمَا؛ لِأَنَّهُ لَا يَشُقُّ عَلَيْهِ إزَالَتُهُ لَمَّا لَمْ يَخَفْ لُزُومَ الْمَهْرِ فَلَا تَحْصُلُ الْمَقَاصِدُ الْمَطْلُوبَةُ مِنْ النِّكَاحِ؛ وَلِأَنَّ مَصَالِحَ النِّكَاحِ وَمَقَاصِدَهُ لَا تَحْصُلُ إلَّا بِالْمُوَافَقَةِ وَلَا تَحْصُلُ الْمُوَافَقَةُ إلَّا إذَا كَانَتْ الْمَرْأَةُ عَزِيزَةً مُكَرَّمَةً عِنْدَ الزَّوْجِ وَلَا عِزَّةَ إلَّا بِانْسِدَادِ طَرِيقِ الْوُصُولِ إلَيْهَا إلَّا بِمَالٍ لَهُ خَطَرٌ عِنْدَهُ؛ لِأَنَّ مَا ضَاقَ طَرِيقُ إصَابَتِهِ يَعِزُّ فِي الْأَعْيُنِ فَيَعِزُّ بِهِ إمْسَاكُهُ، وَمَا يَتَيَسَّرُ طَرِيقُ إصَابَتِهِ يَهُونُ فِي الْأَعْيُنِ فَيَهُونُ إمْسَاكُهُ وَمَتَى هَانَتْ فِي أَعْيُنِ الزَّوْجِ تَلْحَقُهَا الْوَحْشَةُ فَلَا تَقَعُ الْمُوَافَقَةُ فَلَا تَحْصُلُ مَقَاصِدُ النِّكَاحِ.
اگر عقدِ نکاح میں شوہر پر مہر لازم نہ ہو تو وہ معمولی ناچاقی پیدا ہونے پر بھی نکاح ختم کردے گا کیونکہ جب مہر اس پر لازم نہیں تو نکاح کا ختم کرنا اسےگراں بھی نہیں گزرے گا، یوں نکاح سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوں گے۔ مزید یہ کہ نکاح کے مقاصد اسی وقت حاصل ہوسکتے ہیں، جب زوجین میں موافقت ہو اور موافقت اسی وقت ہوسکتی ہے کہ جب شوہر کی نظر میں بیوی کی عظمت ہو اور شوہر کی نظر میں اسی وقت بیوی کی عظمت پیدا ہوسکتی ہے جب اس پرکوئی ایسی چیز لازم کردی جائے جو اس کی نظر میں قیمتی اور قابل قدر ہو کیونکہ جس چیز کاحصول مشکل ہو اس کی دل میں قدر ہوتی ہے، انسان اسے عزیز رکھتا ہے اور جو چیز بآسانی ہاتھ آجاتی ہے وہ انسان کی نظر میں حقیر ہوتی ہے۔ اس لیے اگر عورت کی اہمیت اور وقعت شوہر کی نظر میں نہ ہو تو دونوں میں موافقت نہ ہوگی، نتیجے میں نکاح کے مقاصد حاصل نہیں ہوں گے۔
كاساني، بدائع الصنائع، 2: 275، بيروت: دارالكتاب العربي
اس سلسلے میں شارح ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ سعید احمد پالن پوری لکھتے ہیں:
مہر سے نکاح پائیدار ہوتا ہے، نکاح کا مقصد اس وقت تکمیل پذیر ہوتا ہے جب میاں بیوی خود کو دائمی رفاقت و معاونت کا خوگر بنائیں اور یہ بات عورت کی طرف سے تو اس طرح متحقق ہوتی ہے کہ نکاح کے بعد زمام اختیار اس کے ہاتھ سے نکل جاتاہے، وہ مرد کی پابند ہوجاتی ہے۔ مگر مرد بااختیار رہتا ہے، وہ طلاق دے سکتا ہے۔ پس مرد کو دائمی نکاح کا خوگر بنانے کی راہ یہی ہے کہ اس پر مہر واجب کیا جائے، تاکہ جب وہ طلاق دینے کا ارادہ کرے تو مالی نقصان اس کی نگاہوں کے سامنے رہے اور وہ ناگزیر حالات ہی میں طلاق دے۔ پس حق مہر نکاح کو پائیدار بنانے کا سبب ہے۔ دوسری مصلحت یہ ہے کہ حق مہر سے نکاح کی عظمت ظاہر ہوتی ہے، نکاح کی عظمت واہمیت بغیر مال کے جو کہ عورت کا بدل ہوتا ہے، ظاہر نہیں ہوتی، کیونکہ لوگوں کو جس قدر مال کی حرص ہے اور کسی چیز کی نہیں۔ پس مال خرچ کرنے سے نکاح کا مہتم بالشان ہونا ظاہر ہوتا ہے۔
سعيد أحمد، رحمة الله الواعة، 5: 68، كراتشي، الباكستان: زمزم ببلشرز
درج بالا دونوں اقتباسات میں حق مہر کے وجوب کے جو مصالح بیان کیے گئے ہیں ان کا خلاصہ درج ذیل نکات کی صورت میں سامنے آتا ہے:
حق مہر مذکورہ مصالح کی بناء پر احناف نے تعلیمِ قرآن کو حق مہر تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے کیونکہ متقدمینِ احناف کے نزدیک عبادات، تعلیمِ قرآن اور اشاعتِ دین کے کسی کام پر معاوضہ لینا جائز نہیں اور نہ اسے بطور مال کے عوض میں دیا جاسکتا ہے جبکہ آئمہ ثلاثہ نے ایک روایت سے تعلیمِ قرآن کو حق مہر تسلیم کرنے کا جواز پیش کیا ہے۔ یہ روایت حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک عورت نے آکر اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر جواب مرحمت نہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک شخص عرض گزار ہوا: یا رسول اﷲ! اس کا نکاح میرے ساتھ کردیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ وہ عرض گزار ہوا: میرے پاس تو کوئی چیز بھی نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: کیا لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں؟ عرض کی: لوہے کی انگوٹھی تک نہیں، ہاں میری یہ چادر ہے، اس میں سے آدھی اسے مرحمت فرما دیجئے اور آدھی میں رکھ لوں گا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، تم یہ بتاؤ:
هَلْ مَعَكَ مِنَ القُرْآنِ شَيْءٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: اذْهَبْ فَقَدْ زَوَّجْتُكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ القُرْآنِ.
کیا تمہیں قرآنِ مجید سے کچھ آتا ہے؟ عرض کی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جاؤ میں نے تمہارا نکاح، ان سورتوں کی تعلیم کے عوض، اس سے کر دیا ہے۔
بخاري، الصحيح، كتاب النكاح، باب إذا كان الولي هو الخاطب، 5: 1972، رقم: 4839، بيروت: دار ابن كثير اليمامة
یہ حدیث صحیح مسلم میں ایک اور سند سے یوں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
انْطَلِقْ فَقَدْ زَوَّجْتُكَهَا فَعَلِّمْهَا مِنَ الْقُرْآنِ.
میں نے تمہارا نکاح اس سے کر دیا ہے، اس کو قرآن مجید کی تعلیم دو۔
مسلم، الصحيح، كتاب النكاح، باب الصداق وجواز كونه تعليم قرآن وخاتم حديد وغير ذلك من قليل وكثير واستحباب كونه خمسمائة درهم لمن لا يجحف به، 2: 1041، رقم: 1425، بيروت: دار إحياء التراث العربي
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے:
قَدْ أَنْكَحْتُكَهَا عَلَى مَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ.
میں تمہارے ساتھ، اس کا نکاح قرآن کی تعلیم کے عوض کرتا ہوں جو آپ کو یاد ہے۔
أحمد بن حنبل، المسند، 5: 330، رقم: 22850، مصر: مؤسسة قرطبة
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو نقل کر کے، اس پر یہ تبصرہ کیا ہے:
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ ذَهَبَ الشَّافِعِيُّ إِلَى هَذَا الحَدِيثِ، فَقَالَ: إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ شَيْءٌ يُصْدِقُهَا فَتَزَوَّجَهَا عَلَى سُورَةٍ مِنَ القُرْآنِ، فَالنِّكَاحُ جَائِزٌ، وَيُعَلِّمُهَا سُورَةً مِنَ القُرْآنِ.
وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ العِلْمِ: النِّكَاحُ جَائِزٌ، وَيَجْعَلُ لَهَا صَدَاقَ مِثْلِهَا، وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الكُوفَةِ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ.
یہ حدیث حسن صحیح ہے، امام شافعی کا اس پر عمل ہے، وہ فرماتے ہیں اگر کچھ نہ پایا اور قرآن پاک کی سورت پر ہی نکاح کر لیا تو بھی جائز ہے، عورت کو قرآن کی سورتیں سکھا دے۔ بعض علماء فرماتے ہیں نکاح جائز ہے اور مہر مثل واجب ہو جائے گا، اہل کوفہ ، احمد اور اسحاق رحمہم اﷲ کا یہی مسلک ہے۔
ترمذي، السنن، كتاب النكاح، باب ما جاء في مهور النساء، 3: 421، رقم: 1114، بيروت: دار إحياء التراث العربي
روایت کردہ واقعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نکاح کے خواہش مند مرد سے اولاً کسی ایسی شے کی ملکیت سے متعلق دریافت فرمایا جو مال ہو یا مال کے مثل ہو۔ جب اس نے اپنی مفلسی ظاہر کی اور سوائے جسم پر لپیٹی ایک چادر کے اس کے پاس کچھ نہ پایا تو اس کے عقدِ نکاح کے لیے تعلیمِ قرآن کو حق مہر شمار کر لیا۔ یہ عمومی حالت نہیں بلکہ شارع علیہ السلام نے مخصوص حالات میں مخصوص فرد کے لیے خصوصی حکم مرحمت فرمایا ہے۔ دورِ حاضر میں بھی اگر کوئی شخص مفلس و نادار ہے اور مال یا مثلِ مال میں سے اس کی ملکیت میں ایسی کوئی شے نہیں جسے عقدِ نکاح میں حق مہر شمار کیا جاسکے تو اپنی منکوحہ کو تعلیمِ قرآن کے عوض نکاح پر راضی کر سکتا ہے۔ اگر اس کی منکوحہ تعلیمِ قرآن کے عوض عقدِ نکاح کے لیے راضی ہو جائے تو نکاح منعقد ہو جائے گا۔
رہا آپ کا یہ سوال کہ تعلیمِ قرآن بھی ایسی خدمت ہے جس کا بغیر عوض کے حصول ممکن نہیں تو اسے بھی دیگر خدمات کے مثل قرار دیتے ہوئے حقِ مہر قرار کیوں نہیں دیا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جیسے پہلے بیان ہوا کہ آئمہ متقدمین عبادات اور تعلیمِ قرآن پر معاوضہ کو نہ صرف جائز نہیں سمجھتے بلکہ اسے ایسی خدمت بھی شمار نہیں کرتے جس کا حصول مال کے بغیر ممکن نہ ہو۔ اس لیے انہوں نے تعلیمِ قرآن کو مال یا مثلِ مال نہ سمجھتے ہوئے اسے حقِ مہر شمار نہیں کیا۔ البتہ متاخرین آئمہ نے عبادات، اذان، امامت و خطابت، وعظ و نصیحت اور تعلیمِ قرآن کا معاوضہ لینے کو جائز قرار دیا ہے۔ جیسا کہ محمد بن علی بن محمد حصکفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
(وَ) لَا لِأَجْلِ الطَّاعَاتِ مِثْلُ (الْأَذَانِ وَالْحَجِّ وَالْإِمَامَةِ وَتَعْلِيمِ الْقُرْآنِ وَالْفِقْهِ) وَيُفْتَى الْيَوْمُ بِصِحَّتِهَا لِتَعْلِيمِ الْقُرْآنِ وَالْفِقْهِ وَالْإِمَامَةِ وَالْأَذَانِ.
اور طاعات کے لیے اجارہ پر لینا صحیح نہیں (ہوا کرتا) تھا، جیسا کہ اذان، حج، امامت، قرآن اور فقہ کی تعلیم۔ (تاہم) آج کل فتویٰ ہے کہ قرآن کی تعلیم ، فقہ، امامت اور اذان کی اجرت صحیح ہے۔
حصكفي، الدر المختار، 6: 55، بيروت: دار الفكر
اور علامہ محمد امین بن عمر المعروف ابن عابدین شامی فرماتے ہیں:
إنَّ الْمُتَقَدِّمِينَ مَنَعُوا أَخْذَ الْأُجْرَةِ عَلَى الطَّاعَاتِ، وَأَفْتَى الْمُتَأَخِّرُونَ بِجَوَازِهِ عَلَى التَّعْلِيمِ وَالْأَذَانِ وَالْإِمَامَةِ... كَانَ مَذْهَبُ الْمُتَأَخِّرِينَ هُوَ الْمُفْتَى بِهِ.
علماء متقدمین نے عبادات پر اجرت لینے سے منع کیا ہے اور علماء متاخرین نے تعلیم اور اذان و امامت پر اجرت جائز ہونے کا فتوی دیا ہے۔۔۔ اور فتوی متاخرین کے مذہب پر دیا جاتا ہے۔
ابن عابدین شامي، رد المحتار، 4: 417، بيروت: دار الفكر
دورِ حاضر میں علوم کے شعبہ جات بن چکے ہیں، تعلیمِ قرآن ایک باقاعدہ شعبہ ہے جس کی تعلم کے لیے صَرف ہونے والے وقت کا معاوضہ نہ صرف لینے میں کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا بلکہ پہلے سے طے بھی کر لیا جاتا ہے۔ حفاظ اور قراء حضرات قرآنِ مجید کی تعلیم مدارس میں دے رہے ہوں یا گھروں میں جاکر پڑھا رہے ہوں‘ اس کا معاوضہ لینے میں کوئی ممانعت نہیں سمجھتے۔ ان حالات اور اسباب کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تعلیمِ قرآن کو حق مہر مقرر کیا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی عورت تعلیمِ قرآن کے عوض عقدِ نکاح کے لیے رضامند ہو تو نکاح منعقد ہو جائے گا۔ تاہم لازمی امر یہ ہے کہ اُن حکمتوں اور مصالح کو بھی پیشِ نظر رکھا جائے جو حق مہر کے وجوب کا سبب ہیں تاکہ عقدِ نکاح کی اہمیت اور عورت کی عزت و وقار بھی ملحوظ رہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔